Episode 5 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 5 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                         دعا کرو 

کہتے ہیں دُعاؤں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ہم اس بات کے اتنے زیادہ قائل ہیں کہ ہمارا زور دُعاپہ زیادہ اور دوا پہ کم ہوتا ہے۔ تبھی تو ایک صاحب پورے خشوع و خضوع سے دُعا مانگ رہے تھے اور اُن کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔
لوگ اُنہیں دیکھ کے حیران بھی ہوتے اور متاثر بھی کہ ان جیسا خلوص سے دُعا مانگنے والا شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو… اُس کو یہ تعریف اُس کے ایک پرانے دوست تک پہنچی تو وہ اُس سے ملنے محض اسی خاطر آیا کہ پوچھ سکے کہ کون سی ایسی دُعا ہے جو وہ اتنے خلوص سے مانگ رہا ہے کہ ہر سو چرچے ہیں۔ جب دوست سے اُس نے پوچھا کہ یار تو اتنے انہماک سے کونسی دعا مانگتا ہے کہ تیرے آنسو رُکنے کو نہیں آتے۔

(جاری ہے)

تو اُس کو دوست نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اولاد نرینہ کی دعا مانگ رہا ہوں۔ 
اُس کا پرانا دوست ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگیا اور بمشکل پنی ہنسی روک کے کہنے لگا ”اوئے بے وقوف پہلے تو شادی توکرالے بعد میں بچوں کی دُعا مانگنا۔“ 
کچھ ایسا ہی بیان بجلی کے وزیر نے دیا ہے کہ ہم تو بجلی کی ڈیمانڈ پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
اب آپ عوام ہی دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش عطا فرما دے تاکہ لوگ ٹھنڈے موسم کی وجہ سے ایئر کنڈیشنز بند کردیں اوریوں بجلی کا شارٹ فال کم ہو جائے اور ہماری اقتدار کی مدت یوں ہنسی خوشی پوری ہوتی رہے۔ حکومت کی اس بے بسی کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے از خود نوٹس لے لیا اور ملک میں بارشیں شروع ہوگئیں۔ حکومت کا حال تو اُس محبت کرنے والے نوجوان کا ساہے جو شادی سے پہلے کہتا ہے کہ میں تمہاری خاطر آسمان سے تارے توڑ کے لاسکتا ہوں اور پھر شادی کے بعد یوں لگتا ہے وہ آسمان سے روٹی ہی توڑ کے لادے تو بہت بڑی بات ہے۔
 
تاہم اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہمارا ملک اس یقین پہ چل رہا ہے کہ دُعاؤں میں بڑی برکت ہے۔ خود کچھ کرو یا نہ کرو بس دُعا ضرور کرو۔ آپ جمعہ کے مبارک دن کسی بھی محلے کی مسجد میں چلے جائیں تو ہرمنبرپہ یہ ایک مشترکہ دُعا مانگی جارہی ہوتی ہے کہ اے اللہ تو دشمن کی تو پوں میں کیڑے ڈال۔
یوں وہ توپیں چل نہ سکیں گی۔ جیسے کشمیری بھائی جب یہ کہا کرتے تھے کہ ”دُھپ لگیں تے ٹھس کرسیں“ تو ہمیں مطلب سمجھ میں نہ آتا تھا تاآنکہ ہمارے کشمیری ڈاکٹر دوست نے بتایا کہ آزاد کشمیر میں اتنی سردی ہوتی ہے کہ بندوقیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں تب ہم کہتے ہیں کہ ان کو دھوپ لگے گی تو یہ چلیں گی اور ٹھس کریں گی۔ 
اسی دُعا کے بارے میں ڈاکٹر رخشدہ پروین نے اپنی ننھی سے نظم میں شاید کچھ یوں لکھا تھا۔
 
رات پھر سوچتی رہی 
اور روتی رہی کہ 
میرا اور میرے دشمن کا خدا ایک ہے 
یوں ایک ہی میچ میں دونوں ٹیموں کے حامی اللہ سے دُعا مانگ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری ٹیم جیتے لیکن آخر میں جیتتی وہی ہے جس کا کھیل اچھا ہو۔ 
ہمارا خدا نخواستہ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دُعا نہیں مانگنی چاہیے یا یہ کہ دُعاوں میں اثر نہیں ہوتا۔
کہتے ہیں کہ ماں کی دُعا عرش ہلادیتی ہے مگر اولاد کو بھی تو کچھ کرنا چاہیے اور ہاتھ پاؤں ہلانے چاہییں۔ ماں بیچاری تو ہر بچے کے لیے دُعا گورہتی ہے یہ جب صبح بچے کام یہ جاتے ہیں تو شام کو اُن کے خیریت سے لوٹ آنے کی دُعا کرتی ہے۔ 
دُعاواں نال گھلیندی دھمی
اُڈیکے میری ماں نماشیں 
(دُعا کے ساتھ میری ماں صبح سویرے مجھے رخصت کرتی ہے اور پھر شام کو خیریت سے لوٹ آنے کا انتظار کرتی ہے) اب اگر بچہ محض آوارہ گردی کرکے لوٹ آئے تو اس میں بیچاری ماں کی دُعا کا تو قصور نہ ہوا۔
قصور تو ہماری نیتوں کا ہے ہم دوا سے زیادہ دُعا پہ یقین رکھتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ممالک دُعا سے زیادہ دوا پہ بھروسہ کرتے ہیں۔ تاہم جب ہم بھی ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں تو یک دم ہماری ہڈ حرامی کا فور ہوجاتی ہے اور محنت کے جن سے انگ انگ بھر جاتا ہے اور ہم نکمے سے فعال اور محنتی ہوجاتے ہیں۔ 
دُعائیہ وزیر کی طرح پہلے یہاں ایک دعائیہ گورنر بھی گزرے ہیں جن کی پاس کوئی نوکری کی درخواست لے کر جاتا تو و ہ درخواست ایک طرف رکھ کر فرماتے ”آؤ مل کر دُعا کریں کہ آپ کا کام ہوجائے…“ پھر یہ کام ہو جاتا تھا صرف محاورة یوں کہئے کہ کام تمام ہوجاتا تھا۔
محبوب عوام سے وعدے کرنے والی حکومت اب معذرت خواہا نہ لہجے میں ہمارا یہ ماہیا پڑھتی ہے۔ 
دریا تے پُل ماہیا 
ہیرے نئیں دے سگدے 
توں رکھ لے پھل ماہیا 
(دریا پر پل ماہیار ہیرے نہیں دے سکتے تو رکھ لے پھول(ماہیا) 
(دریا پرپل ماہیا
ہیرے نہیں دے سکتے 
تو رکھ لے پھول ماہیا) 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana