Episode 1 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 1 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شگفتہ بیانیاں 
اُردو اور پنجابی ادب کا ہر سنجیدہ قاری ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے نام اور کام سے بخوبی واقف ہے۔ وہ الیکڑانک میڈیا سے قدرے دور پنجاب کے رومانوی شہر جھنگ میں مقیم ہیں، قدرے گوشہ گیر ہیں مگر گم نام ہرگز نہیں ہیں۔ میں عرصہ دراز سے اُن کی نگارشات کا قاری ہوں، اُن کی تخلیقات سہ ماہی غنیمت میں اشاعت پذیر ہوتی رہی ہیں اور طبع شدہ کتب بھی میرے زیر مطالعہ آتی رہی ہیں۔
وہ دو بڑی قومی زبانوں کے ہمہ جہتی تخلیق کار ہیں۔ تخلیقی وفور سے سرشار ہیں۔ اُن کے عملی مزاج اور طبیعت کی تلاطم خیزی نے قلم کو روانی اور جولانی عطا کر رکھی ہے۔ یوں وہ اپنی گونا گوں پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب کا دامن نت نئے جواہر پاروں سے مالا مال کرتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

صاحبانِ فکر ونظر اور ادبی اداروں نے پیشہ وارنہ اور ادبی سطح پر اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔

 
ابھی وہ مہینے پہلے ہی اُن کی طنز ومزاح اور انشائیوں پر مشتمل دو کتب ”پنڈ دی لاری“ اور ”چائے کی پیالی“ موصول ہوئی تھیں اور ذہن وفکر پر سوچ کے کئی دریچے واکر کے دیدہٴ دل کو سرسبز اور شگفتہ مناظر سے آشنا کر گئی تھیں اور اب چند دن پہلے اُن کے زیرِ نظر کالموں کا مسودہ نظر نواز ہوا ہے۔ 
کالم نگاری کا آغاز تو تقریباً دوسو سال پہلے امریکہ کے ایک جریدے ”ویکلی میوزیم“ سے ہوا مگر اُردو صحافت میں موجود طرز کے کالموں کی ابتدا ۱۹۱۲ء میں مولانا ابوالکلام کے الہلال میں اُن کے لکھے ہوئے کالم ”افکارو حوادث“ سے ہوئی۔
بعد ازاں مولانا ظفر علی خاں نے مکافات، جواہر ریزے، فکاہات چراغ حسن حسرت نے سندباد جہازی، باغ وبہار، مولانا عبدالحمید سالک نے گاہے گاہے، افکارو حوادث، حمید نظامی نے سخن ہائے گفتنی، سرِ راہے، شورش کا شمیری نے قلم قتلے، ظہیر کاشمیری نے شہرِ خیال، انتظار حسین نے لاہور نامہ، احمد ندیم قاسمی نے حرف وحکایت، تہذیب وفن، عطاالحق قاسمی نے روزنِ دیوار سے اور رفیق ڈوگرنے دید شنید سے کافی شہرت پائی۔
بہر حال یہ فہرست بہت طویل ہے۔ 
اسلوب بیان اور فکریات کے حوالے سے پرکھتے ہیں تو ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شگفتہ بیانی کچھ حد تک ابن انشا کی نگارشات سے مشابہہ ہے اور اُن کا اسلوب بیان موجود عہد کے ”زیرو پوائنٹ“ والے معروف کالم نگار جاوید چودھری سے کچھ مماثلت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ بھی اکثر اپنے کالم کا آغاز کسی مختصر واقعے، کسی لطیفے، کسی حکایت یا تمثیل سے کرتے ہیں اور کالم کو منطقی انجام تک لے جاکر کسی سنجیدہ قومی یابین الاقوامی مسئلے کی طرف اشارہ کر کے بات ختم کرتے ہیں۔
اگرچہ وہ ابن انشا کی طرح نہ تو اپنی سیاحت کی کہیں کہانی سناتے ہیں اور نہ ہی اپنے کالم کو جاوید چودھری کی طرح اعدادوشمار اور سیاسی دلائل سے بوجھل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں اہم قومی مسائل مثلاً غیر ملکی قرضے، بجلی، مہنگائی، ٹیکس، انتخابی دھاندلی، سیلاب، ہماری تبدیل ہوتی سماجی اقدار، ہماری بے عملی اور دعاؤں پر انحصار وغیرہ جیسے مسائل پر کہیں طنز اور کہیں مزاح کے انداز میں بھر پور اندا ز میں اظہارِ خیال ملتا ہے مگر جغادریوں کی طرح انھوں نے اپنے کالم کو سیاست آلود ہونے سے محفوظ رکھا ہے۔
وہ نہ تو میدان سیاست کے کھلاڑی ہیں اور نہ ہی سیاست اُن کا پیشہ ہے۔ قلم اُن کا محبوب ہے جس کی حرمت کا انھوں نے پاس رکھا ہے۔ لیکن طنز ومزاح میں بھی انھوں نے اپنی قومی ذمے داری سے پہلو تہی نہیں کی اور جہاں جہاں صروری ہوا، ایک محب وطن پاکستانی کی طرح قومی مسائل اور راہنماؤں کی بے سمتی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اپنے ایک کالم ”نچوڑلو“ میں لکھتے ہیں۔
”حکایات زمانہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ نوکری نہیں ملتی تو کھیلنے کے لیے لیپ ٹاپ مل جاتا ہے۔ جس سے اور کچھ نہیں تو فیس بک پرجی تو بہلایا جاسکتا ہے“ اسی کالم میں آگے چل کر لکھتے ہیں ”افغانستان میں ایک قبیلے کا نام ”کرزئی“ ہے لیکن صوتی طورپر اس کے ہم آواز یہاں پاکستان میں ”قرضیٴ “ قبیلہ جنم لے چکا ہے بلکہ ہر پاکستانی پیدا ہوتے ہی ”قرضیٴ“ ہو جاتا ہے، کیونکہ اُس کی حکومت نے اُس کے نام پر قرضہ لیا ہوتا ہے“ یہ آورد اور نمود سے پاک اُن کا جذباتی خلوص ہے جس کا اظہار سہولت روانی اور صفائی سے کیا گیا ہے۔
عام طورپر کسی کالم نگار کا اپنے تمام کالموں میں اسلوب بیان ایک ساہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ کتاب میں شامل پہلے کالم ”ٹاؤٹوں کا داخلہ منع ہے“ سے لے کر آخری کالم ”باڈی گارڈ“ تک ایک ساطرزِ نگارش رواں دواں ہے۔ اس سفر میں سواری ایک ہی ہے مگر راستے کے مناظر بد لتے رہتے ہیں۔ 
کالم نگار عام طورپر ہر ذہنی سطح کے قاری سے مخاطب ہوتا ہے اور رائے عامہ ہم وار کرتا ہے، اُس کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔
ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے کالم کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے کالم کو ایک طرف تو ایسی علمیت سے بوجھل نہیں ہونے دیا جس سے قاری سہم جائے اور دوسری طرف شکوہِ الفاظ سے گریز کیا ہے کہ بہتر سے بہتر ابلاغ کی صورت پیدا ہو۔ انھوں نے بات کو غیر ضروری طوالت بھی نہیں دی۔ تصنع اور ملمع کاری سے پاک سادگی سے کام لیا ہے اور سادگی چونکہ فطری چیز ہے اس لیے اُن کے شگفتہ کالم فطرت کے قریب ترین اور نا قابل فہم پیچ وخم سے مبرّا ہیں۔
اُن کے ہاں طنز بھی ہے اور مزاح بھی۔ طنز میں اکثر سرزنش کا پہلو ہوتا ہے اور طنز نگار ہنساتا بھی ہے۔ اس بے برعکس مزاح نگار کی بنیاد انسان کی خوش طبعی ہوتی ہے۔ مزاح کی کیفیت آمد کی سی ہوتی ہے۔ مزاح نگار کھل کھلا کر ہنساتا نہیں بلکہ کمال ہُنر مندی سے زیرِ لب مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ صاحبِ کتاب نے اپنے موضوعات گردوپیش کی اشیا اور انسانوں سے لیے ہیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اپنی قوت مشاہدہ پر انحصار کیا ہے اور موضوعات زبردستی منتخب کیے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موضوعات بے ساختہ ان کے ذہن میں آ کر اُن کے تخلیقی شعور کو متحرک کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اوّل وآخر تمام کالموں میں روانی، بے تکلفی اور سلاست نمایاں ہے اور ہر جذبہ ملاوٹ اور رنگ آمیزی کے بغیر اپنی فطری شکل میں موجود ہے۔ یہ لطیف مزاح ہے جو شائستگی اور ملائمت سے مملو ہے۔ 
مختصر یہ کہ ایک طرف انھوں نے اسلوبِ بیان ایسا اپنایا ہے جو ہر ذہنی سطح کے قاری کو اپیل کرے تو دوسری طرف کہیں مذہب اور کہیں سیاست پر بات کرنے کے باوجود اپنی بات کو ہر مکتبِ فکر کے قاری کے لیے قابلِ قبول بنایا ہے۔
یہ اس لیے ممکن ہوسکا کہ اُن کا مطمع نظر ایک طرف ادب کا فروغ اور دوسری طرف معاشرتی اور قومی مسائل کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ نیت کا خلوص دلوں میں ضرور اپنی جگہ بنالیتا ہے۔ میں نے تمام کالم پوری یک سوئی اور دلچسپی کے ساتھ ایک ہی نشست میں پڑھے۔ اس دوران، راقم الحروف مکمل طورپر مسودے کی گرفت میں تھا۔ لہٰذا مجھے توقع ہے کہ ہر قاری کتاب کو ایک ہی نشست میں مکمل کرے گا۔
 
مجھے اُمید ہے کہ ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی یہ خوش مذاقی قارئین کی ذہنی کیفیت کو ایک طرح کی بشاشت اور ایک نفسی انبساط سے ہم کنار کرے گی۔ دل ودماغ کا کیتھار سس بھی ہوگا اور لب ہلکی مسکراہٹ سے آشنا بھی ہوں گے۔ ہمارے موصوف چوں کہ باقاعدہ شاعر اور ادیب ہیں اس لیے ادبی چاشنی سے بھر پور یہ تازہ تر ادب پارہ نذرِ قارئین کرنے میں انہیں بے حد مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ 
اکرم کُنجاہی 
مدیرسہ ماہی غنیمت

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana