Episode 7 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 7 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                                 آ بیل مجھے لتاڑ 

شاعروں کی تو عادت ہوتی ہے کہ محبوب کے لبوں سے دشنام سن کر بے مزا نہیں ہوتے بلکہ خوش ہوتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ: 
گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا 
بلکہ وہ گالیوں کے لفظوں پر تو غور ہی نہیں کرتے اُن کی توجہ محبوب کے لب ورخسار پہ ہوتی ہے جہاں نہایت خوش الحانی سے یہ نشر ہورہی ہوتی ہیں۔
گالیاں کھا کے بھی اُنہیں محبوب کے لب شیریں لگتے ہیں اور لگتا ہے اُن میں سے شیرہ ایسے ٹپک رہا ہے جیسے جلیبیوں میں سے ٹپکتا ہے۔ 
اسی طرح سے ہمارے محلوں میں بہت سے اسے کردار ہوتے ہیں جن کے ”نک نیم“ لوگوں نے بڑے فینسی قسم کے رکھے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ نک نیم(Nick Name)ان کی ”چھیڑ“ بن جاتے ہیں۔ لوگوں کا جب چھیڑ خانی کو جی چاہتا ہے وہ اُن کرداروں کو ان ے نک نیم سے پکارتے ہیں تو وہ اُس ”چھیڑ“ سے ”چھڑ“ پڑتے ہیں۔

یہاں تک کہ محلے کے شرارتی لڑکے ایک دوسرے سے شرط لگاتے ہیں کہ تم فلاں کو اس چھیڑ سے چھیڑ آؤ تو تب تمہیں جانیں اور اگر ایسا کر گزرو تو ہم تمہیں انعام واکرام سے نوازیں۔ چھیڑنے والا بھی فوراً چھیڑ خانی کو تیا رہوجاتا ہے کیونکہ اُسے اُس میں لذت حاصل ہونے کے علاوہ آمدنی کا بھی امکان ہوتا ہے۔ ایسے ہی کسی نے ایک صاحب کو جو گنجے تھے چھیڑنے کے لیے دوسرے صاحب کو کہا کہ اُسے گنجا کہہ کر چھیڑ آؤ۔
اب بھلا گنجا ہونا تو کوئی برُی بات نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے بلکہکچھ لوگ تو کہتے ہے تو گنج آنے سے گنج یعنی سرمایہ آتا ہے اور یوں بندہ امیر کبیر ہوجاتا ہے۔ تاہم جواللہ کی اس نعمت کو برُا سمجھتے ہیں وہ گنجا کہلانے پر چھڑ جاتے ہیں۔ وہ صاحب بھی گنجا کہنے پہ بہت برُا مانتے تھے۔ تاہم دوسرے صاحب اُن کے پاس گئے اور نہایت تمیز سے بولے ”وہ جو سامنے صاحب کھڑے دانت نکوس رہے ہیں اُنھوں نے کہا ہے کہ میں آپ کو گنجا کہوں لیکن میں نے اسے کہا ہے کہ میں آپ کو کیوں کہوں۔
حالانکہ گنجا ہونے میں بھلا کیا برُائی ہے یہ گنج تو اللہ کی طرف سے ہوا ہے۔ ویسے بھی میں نے اُنہیں کہا کہ آپ بڑے ظرف والے ہیں اور گنجا کہنے پر غصے میں نہیں آئیں گے کیونکہ گنجے کو گنجا کہنا کوئی برُی بات نہیں۔ ہاں کوئی گھنے بالوں والے کو گنجا کہئے تو بات بھی ہے۔ اب آپ ہی سوچیں کہ گنجے کو گنجا کہنے میں بھلا کیا برُائی ہے اور پھر اس کو مائنڈ کرنے والی کون سی بات ہے آخر گنجے کو گنجا نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔
سر میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ گنجا کہنے پر مائنڈ نہیں کریں گے… 
یوں دوسرے صاحب نے شرط تو جیت لی مگر اُس گنجے نے اُسے مار مار کر گنجا کردیا۔ 
اسی طرح سے ہم حیران ہوا کرتے تھے کہ بھلا سپین کے لوگوں کو خواہ مخواہ بیل سے مار کھانے کا شوق ہے اور لال کپڑا لہراتے ہوئے اُسے ”دعوتِ لڑائی“ دے رہے ہوتے ہیں۔
کئی تو بیل لتاڑ بھی دیتے ہیں اور اس شوقِ مار میں کئی اللہ کو بھی پیارے ہوجاتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں تبھی تو سپین والے باقاعدہ میلہ منعقد کرکے کہتے ہیں کہ آبیل مجھے مار۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ آبیل مجھے لتاڑ… وہ اس مار کھانے اور لتاڑے جانے میں بھی لذت محسوس کرتے ہیں۔ 
کہتے ہیں کہ ایک پتلے سُکناڑ (سوکھا ہوا) آدمی نے داؤ لگا کر ایک موٹے آدمی کو نیچے گرالیا۔
پھر موٹے آدمی کو چت کرنے کا جشن منانے لگا اُس کی موٹی توند پر اُچھل اُچھل کر دونوں ہاتھوں سے وکڑی کا نشاں بنانے لگا۔ تاہم تھوڑی ہی دیر جب فاتحانہ جشن کا بھوت اُترگیا تو وہیں پیٹ پر بیٹھ کر رونے لگا۔ لوگ بڑے حیران ہوئے کہ یہ تو فاتح تھا اب موٹے کے پیٹ پہ بیٹھا رو کیوں رہا ہے۔ انھوں نے آکر پوچھ ہی لیا: 
”بھائی تم نے تو موٹے کو گرالیا ہے۔
اب روتے کیوں ہو؟ وہ روتے روتے بولا ”مجھے یہ ڈر ہے کہ جب یہ نیچے سے اُٹھے گا تو مجھے جیت مارے گا…“ 
یہاں یہ جب حکومتیں سمجھتی ہیں کہ اُن کے امور سلطنت بالکل ٹھیک چل رہے ہیں تو اُنہیں مزا نہیں آتا جو مزا کسی کو چھیڑنے میں اور پھر اس کے چھڑ جانے پہ نظارہ کرنے میں ہے وہ مزا آرام میں کہاں۔ سو فتح میں مخمور سلطان کبھی کسی کو چھیڑتے ہیں تو کبھی کسی کو… اب یہاں غلطی سے پنگا لینے پر انگلی شہد کی مکھی کے چھتے میں بھی جاسکتی ہے پھر بعض حکمرانوں کو پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کا بھی شوق ہوتا ہے کوئی نہ مارے تو کلہاڑی یہ خود پاؤں ماردیتے ہیں۔
انھوں نے شاید صنف نازک کے متعلق سن رکھا ہوتا ہے کہ چھری خربوزے پہ گرے یا خربوزہ چھڑی پہ گرے نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ تو اپنے محبوب کے لیے لکھا گیا ہے۔ اب دوسری جانب صنف نازک کی بجائے صنف کرخت بھی تو ہوسکتی ہے اور خربوزے کی جگہ پہ کوئی بم بھی… 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana