Episode 10 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 10 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                             باغی زن مرُید

وہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بہت پریشان تھا۔ اس نے امن وآشتی سے رہنے اور حکم بجا لانے کی اخیر کردی تھی مگر پھر بھی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ وہ جتنا جھکتا اُس پہ اُتنا ہی زیادہ بوجھ لاددیا جاتا۔ وہ ہر وقت پریشان رہنے لگا۔ آخر ایک پرانے دوست سے دل کا حال کہہ ڈالا۔ اُس نے اُس کی داستان غم سنی تو بے حد افسردہ ہوا۔
اُس کے دوست نے بتایا کہ تم فلاں جگہ چلے جاؤ ایک حجرے میں چار بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہت پہنچے ہوئے مشہور ہیں۔ اُن سے جاکر حال دل کہہ ڈالو۔ کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا… 
وہ بڑی امیدیں لے کر گھر سے روانہ ہوا۔ آخر کار اُن بزرگوں کے حجرے میں پہنچ ہی گیا لیکن راستے میں اُس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنا تعارف کیسے کروائے گا اور اپنا دکھ کیسے بیان کرے گا۔

(جاری ہے)

وہاں پہنچنے پر اس نے نہایت عقیدت سے سب بزرگوں کو سلام کیا اور پھر اُسکے قدموں میں دو زانو ہو کے بیٹھ گیا۔ آخر کار ایک بزرگ نے آگے بڑھ کر اُس کی کمرپر تھپکی دی اور کہا ”بول بچہ بول کون سا ایسا دکھ ہے جو تمہیں اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔ لگتا ہے اس دکھ نے تمہارا سارا خون نچوڑ لیا ہے۔ چہرے کی زرد رنگت بتارہی ہے کہ تم ظلم وجبر سہتے آئے ہو۔
اس بزرگ کی اس شفقت بھری گفتگو اور سلوک سے پہلے تو اس کی آنکھیں نم ہوئیں پھر چھم چھم برسنا شروع ہوئیں۔ آنسوؤں کا طوفان تھما تو اُس نے اپنا دکھ بیان کرنا شروع کیا۔اس کا دکھ سن کر سارے بزرگ بھی پہلے افسردہ ہوئے پھر اُن کی اکھیاں تر ہوگئیں۔ وہ سب اُٹھے اور اُسے گلے سے لگالیا پھر یک زبان ہو کر کہنے لگے”یار تو اپنا ہی ساتھی نکلا بھلا ہماری صفوں کے دوسری طرف کیوں بیٹھے ہو۔
ہماری طرف آن بیٹھو۔ ہم بھی تمھارے پیر بھائی ہیں۔“
”پیربھائی… وہ کیسے؟“ 
”ہم بھی آپ کی طرح اُسی کے مرید ہیں…“
”کس کے مرید ہیں؟“ 
”ہم بھی آپ کی طرح زن مرید ہیں…“
وہ بھی جذباتی ہو کر سب کے گلے لگ کے زور زور سے رونے لگا پھر انہی کی صف میں بیٹھ گیا لیکن تھوڑی ہی دیر میں اُس کی غیرت نے انگڑائی لی اور وہ پھر صف کی دوسری طرف سائلوں والی جگہ پہ بیٹھ گیا۔
 
”نہیں نہیں… میں ادھر نہیں بیٹھوں گا…“
”کیوں کیا ہوا… اگر ہم سب یوں دل ہار کے ایک طرف ہوکے بیٹھ گئے تو پھر یہ نظام کیسے بدلے گا…“ 
اُن میں سے ایک بزرگ بولا”دیکھو ہم نے بھی اس نظام کو تبدیل کرنے کی بڑی کوشش کی… لیکن کیا ہوا کہ بیگم نے اپنے مشٹنڈے بھائیوں کو بلا کر میری خوب پٹائی کی ہے ایک ہفتہ ہسپتال داخل رہا تب جاکے کہیں ہوش آیا۔
میں نے تو تب اس نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے تو بہ کرلی ہے۔“ 
”اگر آپ نے تو بہ کرلی ہے تو پھر آپ گھر چھوڑ کر یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔“ 
”وہ اس لیے کہ یہ بھی بیگم صاحب کا حکم ہے کہ یہاں بیٹھو اور لوگوں کو زن مرید بننے کی ترغیب دو اور انہیں سمجھاؤ کہ اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش مت کرو…“ باقی سب بزرگوں نے اس پہلے بزرگ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
 
”لیکن ہم اس استحصالی نظام میں ساری عمر کیسے گزارہ کر سکتے ہیں…“
”ہماری عمر ہی کتنی ہے جتنی باقی رہ گئی ہے ہمیں سکون سے گزارنے دو…“ 
”نہیں نہیں… آپ کو دیکھ کے تو میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اب میں تبدیلی لاکے رہوں گا… آپ کے آخر بچے بچیاں بھی ہوں گے آپ نے انہیں ساتھ کیوں نہیں ملایا؟ “
بزرگ بولے ”ہم نے انہیں بھی قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔
اپنا موقف پیش کیا تھا۔ وہ مان بھی گئے تھے مگر نجانے انہیں کیا رشوت پیش کی گئی کہ وہ سب بھی ہمارے خلاف ہوگئے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اُنہیں ہم سے بہتر آفر ہوئی گئی جو انھوں نے قبول کر لی ہوگی۔ 
”لیکن یہ سراسر آپ کی نااہلی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو ہی قائل کرنے میں ناکام رہے…“ 
”تم ابھی بچے ہو… تمھارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ تم اس سسٹم سے بغاوت کرسکو…“ 
وہ مصمم عزم کے ساتھ بولا”وسائل ہوتے نہیں پیدا کیے جاتے ہیں، اس کے لیے ذہن بدلنے کی ضرورت ہے۔
میں آپ جیسے کمزور اور بزدل لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا میں یہ نظام تبدیل کرنے جارہا ہوں اور کر کے دکھاؤں گا…“وہ یہ زور زور سے بڑبڑاتا زن مریدوں کے حجرے سے باہر نکل آیا۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana