Episode 27 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 27 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                 اپنے بستوں میں یہ خواب ہی بھر لاتے تھے 

ہمیں جب بھی سکول سے چھٹی ہوتی تو خوشی سے جھومتے گھر کو جاتے۔ وہی گھنٹی جب صبح بجتی تھی تو ان کے آغاز کی علامت ہوتی تھی اور ہمیں اتنی اچھی نہ لگتی تھی۔جتنی چھٹی کے وقت یہ بجتی ہوئی کانوں میں رس کھولتی تھی۔ ایسے ہی صبح صبح کتابوں سے بھرے بستے ذرا بھاری لگا کرتے تھے مگر وہی بستے چھٹی کے وقت نجانے کیسے خود ہی ہلکے ہوجاتے تھے۔
ہمارے گھر کے راستے میں ایک بہت بوڑھا پیپل کا درخت آتا تھا جس کی وجہ سے ہماری گلی بھی پیپل والی گلی کہلاتی تھی۔ اسی پیپل کے عین نیچے ایک مکان کی دہلیز پہ چھٹی کے وقت بیٹھی اماں اپنے بیٹے کا بے تابی سے انتظا ر کر رہی ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

جونہی ہم یا دوسرے لڑکے اس کے قریب سے گزرتے تو وہ سب سے پہلا سوال یہی کرتی ”بیٹا سکول کو چھٹی ہوگئی ہے…“ اور دوسرا سوال یہ ہوتا ”میرا بیٹا ابھی تک کیوں نہیں آیا۔

“ ہم سب کو معلوم تھا کہ اس کا بیٹا ابھی آنے والا ہے جیسے ہمیں چھٹی ہوئی ہے اور ہم گھر جارہے ہیں تو وہ بھی آ جائے گااس میں فکر مند ہونے والے کون سی بات ہے۔ جب تھوڑی دیر بعد اُس کا بیٹا آجا تا ہے وہ اُس کو گلے لگاتی۔ منہ چومتی اور خدا کا شکر ادا کرتی ان دنوں ہمارا بھی بچپنا تھا اور ہم اُس کی اسی اضطراری کیفیت کو جنون سے تعبیر کرتے تھے حالانکہ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ ذہنی طورپر بالکل نارمل ہے البتہ اپنی اولاد کی فکر میں وہ نیم پاگل دکھائی دیتی تھی۔
 
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہر ایک گھر میں بچوں کی تعدا دآدھی درجن سے ایک درجن ہواکرتی تھی۔ آدھی درجن سے کم بچے پیدا کرنے والوں کو جنسی طورپر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جیسے عرب کے باسیوں کو چار شادیوں کی عادت ہے اور ہم جو ایک شادی پہ اکتفا کرتے ہیں تو اُنہیں ہم لوگوں میں کوئی مردانہ کمزوری کے آثار نظر آتے ہیں حالانکہ یہ اپنے اپنے علاقوں کے رواج کی بات ہے۔
بہر حال جہاں گھر میں اتنے بچے ہوں تو بھلا پر ایک بچے کا اس طرح سے دیوانہ وار کون خیال رکھتا تھا۔ کچھ پڑھ گئے تو کچھ نکمے نکلے۔ حساب برابر… تاہم بچہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، کام کا ہو ایا نکما۔ ماں باپ کے لیے تو وہ ایک جیسا ہی پیارے ہوتے ہیں ہاں نکمے اور ان پڑھ کو ڈانٹ ذرا زیادہ پڑجاتی ہے جس کا یقینا مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ بھی سدھر جائے تو اچھا ہے۔
 
اب تو لوگ نسبتاً اپنی اولاد کی طرف زیادہ متوجہ ہوگئے ہیں کیونکہ گھر کی نفری بھی کم ہوگئی ہے۔ کچھ خاندانی منصوبہ بندی کی تشہیر کی وجہ سے اور کچھ معاشیات نے لوگوں کو ایسا جھنجھوڑا ہے کہ الامان اور الحفیظ۔ اب ہر کوئی اپنے معصوم اور پیارے بچوں کو بڑے سے بڑا آدمی بنانا چاہتا ہے۔ کم ازکم اُس سے بڑا جتنا وہ خود ہے۔
اس کوشش میں بھی کئی والدین حد سے گزر جاتے ہیں اور اتنی احتیاط کرتے ہیں کہ اُن کے بچوں کو ممی ڈیڈی بچے پکارا جاتا ہے۔ بہت زیادہ بھی محبت ان بچوں میں خود اعتمادی نہیں آنے دیتی۔ 
ماں کی محبت تو لازوال ہے ہی مگر یہ نہیں کہ والد اولاد سے اتنی محبت نہیں کرتا۔ ماں تو بچے کو پیار کرتی ہے،گلے لگاتی ہے باربار چومتی ہے اور اُن کے تھوڑے سے دکھ پر رونے لگتی ہے۔
مگر کیا کیجئے کہ باپ چونکہ مضبوط اعصاب کا استعارہ ہے تو وہ بیچارہ پوری طرح کھل کر اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتا۔ وہ سوچتا ہے کہ بچوں کے دکھ پر وہ بھی ماں کی طرح رونے لگے تو سب کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔ اسی لیے وہ اپنے آنسو چھپا کے رکھتا ہے لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُسے اپنی اولاد سے اتنا پیار نہیں جتنا ماں کو ہے۔ کبھی بچوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ اُن کے ماں باپ فلاں بچے سے زیادہ محبت کرتے ہیں اس کی کوئی غیر شعوری وجہ تو ہوسکتی ہے مگر شعوری نہیں۔
جیسے ہمیں پتہ نہیں چلتا تھا کہ ابو ہمارے چھوٹے بھائی ڈاکٹر غلام جیلانی فیصل مگھیانہ سے اس قدر محبت کیوں کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ابو سے کوئی چیز منوانی ہوتو فیصل کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ وہ تو جب کینسر سے اُس کی کارڈیالوجی میں پی ایچ ڈی کرتے، ماسکو میں ۱۹۹۷ء میں وفات ہوئی تو ہمیں اُس سے بے انتہا پیار والی بات سمجھ آئی اور پھر اُس کی وفات کے بعد امی ابو دونوں یہ دکھ زیادہ دیر نہ سہار سکے۔
۔۔ 
نجانے والدین کن کن ارمانوں سے اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں اُن کے سکول کے بستوں میں اُں کا پیار اور دنیا پھر کی خواہشیں چھپی ہوئی ہیں۔ گھر واپسی کا بے تابی سے انتظار ہوتا ہے کہیں بھی کسی حادثے کا سنتے ہیں تو سب بے چین ہوجاتے ہیں۔ حادثے کی موت بھی برداشت نہیں ہوتی اور پھر اچانک یوں کوئی آکے سکول میں معصوم بچوں پہ گولیاں کی بوچھاڑ کردے تو بھلا یہ تو بات پوری قوم کو بھی ہضم نہیں ہوسکتی۔
۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچے کیایا ارمان لے کر اٹکھیلیاں بھرتے ہوئے سکول نہیں گئے ہوں گے،انہیں کیا معلوم کہ کیسی قیامت آنے والی ہے۔ ایسے سفاک قاتل تو دنیا بھرنے کہیں نہ دیکھے ہوں گے۔ وہ عظیم ٹیچر جو بچوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوگئی اُسے زندہ جلاتے ہوئے اُن کے ہاتھ کیوں نہ کانپے۔ پرنسپل، اساتذہ اور سیکورٹی گارڈ تو دہائیاں دیتے رہے،مگر آسمان تک بلندہونے والی رحم کی اپیل کسی نے نہ سنی۔
مارنے والوں کو جنت کا لالچ دے کر اس قدر بہکایا گیا کہ انہیں یہ ۱۴۲ بچے سب مٹی کے کھلونے ہی نظر آئے۔ ہم صفحوں کے صفحے کالے کر لیں پھر بھی یہ غم پوری طرح نہ لکھ سکیں گے۔ البتہ سوگوار قلم سے اور خون نچکاں دل سے یہ چند شعر لکھ سکے ہیں۔ 
پھولوں کی طرح نازک تھے یہ پیارے بچے
تھے ماں باپ کی آنکھوں کے یہ تارے بچے 
اسمبلی میں تھے یہ گیت وطن کے گاتے 
بلند کرتے تھے امن کے یہ نعرے بچے 
اپنے بستوں میں یہ خواب ہی بھرلاتے تھے
روز جاتے تھے جو پڑھنے کو یہ پیارے بچے 
ماں تکتی رہی راہ کہ آتے ہیں ابھی 
کیا ہوا ایسا کہ جنت کو سدھارے بچے 
روز محشر جو کوئی پوچھے توکیا بولو گے 
تونے کس لیے آخر یہ مارے بچے 
میرے آگے سے یہ تصویر ہٹا لو محسن 
دیکھے جاتے نہیں جاں سے یہ ہارے بچے

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana