Episode 28 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 28 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                          چھٹیاں قسم قسم کی 

چھٹی کا لفظ اتنا پرُ کشش ہے کہ اسے سنتے ہی سارے جسم پہ سحر سا طاری ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی من حیث القوم ہم سست اور آرام پرست قوم ہیں۔ بچپن ہی سے چھٹی کا سحر ایسا دماغ میں چھایا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ عملی زندگی میں بھی جاری وساری رہتا ہے۔ کہنے کو تو انگریز لوگ ہم سے زیادہ چھٹیاں کرتے ہیں کہ اُنہیں ہفتہ وار دو چھٹیاں ملا کرتی ہیں مگر وہ پانچ دنوں میں اتنا دلجمعی سے کام کر جاتے ہیں کہ دو چھٹیوں کے حق دار قرار دیئے جاسکتے ہیں۔
ایک ہم ہیں کہ ساڑھے پانچ دن بھی اوکھے سوکھے گزارتے ہیں کہ کب اتوار آئے اور ہم دفتر سے آزاد ہوں یہ الگ بات کہ ہم نے زیادہ تر ”غیر دفتری کام“ اتوار کے لیے ہی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں اور اتوار کا دن ایسی مصروفیت میں گزرتا ہے کہ جیسے مٹھی میں سے ریت سرک رہی ہو اور پھر آگے سے اچانک سوموار آجاتا ہے جب سارے لوگ بوجھل قدموں سے دفتر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

 

لیکن ایک چھٹی وہ ہوتی ہے جو ہم کبھی نہیں کرنا چاہتے جیسے ایک سپلی وہ ہوتی ہے جو امتحان میں آتی ہے جسے کوئی بھی پسند نہیں کرنا اور دوسری سپلی وہ ہوتی ہے جو ہوسٹلز میں اپنی اوریجنل سالن یا سویٹ ڈش کی پلیٹ ختم کرنے کے بعد ملتی ہے۔
موخرالذکر سپلی اتنی مزیدار لگتی ہے کہ اوریجنل پلیٹ والی شے جلدی سے جلد کھاکر سپلی کا مزہ لینے کو جی چاہتا ہے اسی طرح سے ایک چھٹی وہ ہوتی ہے جو کاروبار کا مالک یا حکومت آپ کو نوکری سے چھٹی کروا دیتے ہیں۔ یقینا دوسری قسم کسی کو پسند نہیں۔ 
کہتے ہیں کہ کاروبار کے باس اپنے کارخانے کا دورہ کر رہے تھے تو دیکھا کہ ایک نوجوان بڑے مزے سے ایک درخت کے نیچے لیٹا ہوا ہے اور امرود کھا رہا ہے۔
وہ تیزی سے اُس کی طرف بڑھے اور نہایت غصے کے عالم میں کہنے لگے۔ 
”تم بہت ہڈحرام لگتے ہو۔ تمہاری ڈیوٹی کیا ہے؟“ 
وہ بولا ”جناب میں چپڑاسی ہوں۔“ 
باس غصے سے بولے ”چپڑاسی ہوکر کام کے وقت آرام کر رہے ہو۔ تم کتنی ماہانہ تنخواہ لیتے ہو؟“ 
”جی بس چار ہزار روپے ملتے ہیں بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ہے…“ 
”تم جیسے ہڈحراموں کو چار ہزار سے زیادہ ملنا بھی نہیں چاہیے۔
“ 
یہ کہہ کر باس نے جیب میں سے چارہزار نکالے اور اُسے دیتے ہوئے کہا ”یہ لو پکڑو چار ہزار اور آئندہ مجھے اس کارخانے میں نظر نہ آنا…“ 
وہ ہڈ حرام چار ہزار لے کر چلتا بنا تو باس نے اپنے اسسٹنٹ سے پوچھا ”دیکھو میں نے اس کو نکال کر صحیح کام کیا ناں؟“ 
اسسٹنٹ بولا ”لیکن سر وہ تو ہمارے کارخانے کا ملازم ہی نہیں تھا۔
وہ تو ایک دوسری فیکٹری میں کام کرتا تھا اور آپ کے لیے اپنی فیکٹری کے مالک کا پیغام لایا تھا اور میں نے اُسے کہا تھا کہ صاحب کارخانے کا وزٹ کرلیں تو بعد میں تمہیں ملواتا ہوں…“ 
”لیکن تم اُس وقت کیوں نہ بولے…“ 
”سر آپ اُس وقت غصے میں تھے…“ اور اب اگر میں غصے میں آکر تمہیں نکال دوں تو۔
 
خیر باس نے رحم کھا کر اُسے نوکری سے نہ نکالا لیکن یقینا کوئی بھی اس قسم کی چھٹی کو پسند نہیں کرتا۔ سرکاری ملازم کے لیے چھٹیوں کی تو مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک تو وہی ہفتہ وار اتوارکی چھٹی ”دوسری جمعة المبارک کے دن آدھی چھٹی۔ اس کے علاوہ ”کیثروال“ یعنی حادثاتی چھٹی کی تعدا ۲۵ ہوتی ہے۔ اس کو ”ایویں“ چھٹی بھی کہتے ہیں یعنی کوئی ایمرجنسی نہ بھی ہوتو ایویں ہی لے لیتے ہیں (یا خواہ مخواہ بھی لے لیتے ہیں)۔
البتہ ایک ”شارٹ لیو“ یعنی مختصر چھٹی بھی ہوا کرتی تھی جس پر سنا ہے حکومت نے پابندی لگادی ہے۔ یہ ”مختصر چھٹی“ ایک ایسی نعمت تھی کہ آپ نے کہیں بھی کھسکنا ہو تو کاغذ پر ”مختصر چھٹی“ لکھ کر نودوگیارہ ہوسکتے تھے۔ کہتے تو ہیں کہ اس پہ پابندی لگ گئی ہے مگر اس کا فیض ابھی بھی جاری وساری ہے۔ 
”مختصر اور ایویں“ کی چھٹی کے علاوہ سرکاری ملازم کو ہرماہ چار چھٹیاں ملتی ہے۔
جو ارنڈ Earnedیا کماؤ چھٹیاں بھی کہلاتی ہیں۔یہ آپ ماشاہ اللہ جو سارا ماہ دلجمعی سے دفتر میں ملک وقوم کی خدمت کرتے ہیں اور تھکن سے چو ر چور ہوجاتے ہیں اُس کے عوض ملتی ہیں ان کی خوبی یہ ہے کہ اگر آپ یہ چھٹی نہ لیں تو یہ ساری چھٹیاں جمع ہوتی رہتی ہیں اور پھر کسی ایمر جنسی یا پلاننگ کے تحت یہ لے سکتے ہیں۔ یوں واقعی زندگی میں نوکری کے علاوہ اپنے کام اور خواب پورے کرنے کو یہ کام آتی ہیں تاہم اگر ساری نوکری کے دوران آپ نہ لیں تو نوکری کے آخرتک محض ایک سال رہ جاتی ہیں۔
 
سب سے مزے کی ”بیماری چھٹی “ ہوتی ہے۔ جن میں اصلی بیمار تو کم کم ہوتے ہیں مگر ذہنی بیماروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹروں کی کم بختی آئی جاتی ہے کہ اُن پہ یہ چھٹی لکھنے کے لیے ایسا ایسا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ کئی سیانے تو ”ازحد بیماری“ کی چھٹی خود ہی چل کر دینے پہنچ جاتے ہیں کہ جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ اتنا ہے بیمار کہ چل بھی نہیں سکتا۔
یوں اُس ڈاکٹر کی بھی چھٹی ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس نے یہ چھٹی لکھی ہوتی ہے۔
غیر ملکی چھٹی بھی سرکاری ملازم کو لینا لازمی ہوتی ہے جب اُس نے کسی دوسرے ملک جانا ہو لیکن پوری دنیا کو یہ علم تک نہیں کہ پاکستان میں سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ بیک وقت ایک ہی شخص اپنے پیارے اسلامی ملک پاکستان میں دفترمیں نہایت دلجمعی سے نوکری بھی کررہا ہوتا ہے اور اُس کا ”کلون“ غیر ملک میں سیر بھی کررہا ہوتا ہے۔
غیر ملکی لوگ تو ہماری ”تہواری چھٹیوں“کی لسٹ بھی دیکھ کر حیران اور پریشان ہوتے ہیں کہ اتنے تہواروں کا آئیڈیا اُنہیں کیوں نہ سوجھا۔ 
ہمارے ہاں موڈی چھٹیاں اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن ان چھٹیوں کے لیے ہمیں کوئی چھٹی کی درخواست نہیں لکھنی پڑتی کیونکہ ہم یہ چھٹی دفتر میں بیٹھ کر ہی مناتے ہیں بس ہمیں اتنا کہتے سنا گیا ہے کہ ”یار آج ہمارا کام کرنے کا موڈ نہیں ہے…“ تاہم ان سے چھٹیوں سے بڑھ کر وہ چھٹیاں بھی ہوتی ہیں جس میں محبوب پکار پکار کر کہتا ہے: 
آئے موسم رنگیلے سہانے 
تو چھٹی لے کے آجا بالما 
لیکن اس بات کا بہت کم لوگوں کو پتہ ہے بالما کے لیے اسی رومانوی چھٹیوں کا بھی حکومت نے بندو بست کیا ہے او سنا ہے کہ قریباً دو ہفتے کی سیروتفریح کی بھی سالانہ چھٹیاں ہوتی ہیں جو لوگ کم علمی کی وجہ سے نہیں لیتے۔
تاہم ہم ابھی بھی ہر وقت حکومت سے ”مطالبہ کناں“ رہتے ہیں کہ فلاں فلاں دن کو بھی قومی دن مان کر اُس دن سرکاری چھٹی کا اعلان کر دیا جائے تاکہ قوم کی ترقی کی رہی سہی کسر بھی نہ چھوڑی جائے۔ ہماری سست الو جودی کے لیے گھڑے بہانوں کی اخیر تو یہ ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا ”کام کام اور کام“ اسے یار لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ اردو والا کام نہیں کہا گیا چونکہ قائداعظم زیادہ انگریزی بولتے تھے تو انھوں نے انگریزی والا کام "Calm"کہا تھا یعنی انھوں نے کہاتھا”آرام، آرام اور آرام“۔
 
بچوں کے لیے تو چھٹیوں کی خوشی الگ ہی معنے رکھتی ہے۔بچے بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ سائنسی فارمولے چھٹیوں پر اپلائی ہوتے ہیں جیسے سائنس کہتی ہے کہ گرمیوں میں چیزیں پھیلتی اور سردیوں میں سکڑتی ہیں تو چھٹیاں بھی گرمیوں میں پھیل کر زیادہ ملتی ہیں اور سردیوں میں سکڑ کر تھوڑی رہ جاتی ہیں۔ تاہم یقینا کسی کو بھی ایسی چھٹیاں نہیں چاہیں جو ملک کی دہشت گردی کی وجہ سے ہمیں دفتروں کاروبار یا سکولوں میں کرنا پڑیں۔ اے ارض وسما کے مالک ہمیں اس قسم کی چھٹیوں سے محفوظ فرما اور ہمارے ملک کو پھر سے امن وآشتی کا گہوارا بنادے۔ (آمین)

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana