Episode 24 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 24 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                             یاد کرو 

اس نے اپنے دوست سے پوچھا ”یار نجانے کیا بات ہے اب میں چیزیں بھولنے لگاہوں۔ یکدم ذہن خالی ساہو جاتا ہے…“ 
”کوئی بات نہیں ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔ ٹینشن نالے…“ 
”یار ٹینشن تو آخر ہوجاتی ہے…“ 
”تو اس کا آسان طریقہ ہے کہ اس وقت فوری طورپر سوچنا بند کر دیااور دماغ کو کسی اور طرف لگایا کہ تھوڑی دیر بعد بات خود بہ بخود یاد آجائے گی۔
۔۔“ 
پہلا دوست بولا ” ہاں یار یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے۔ تھوڑا ذہن اِدھر اُدھر کرنے سے بات تو یاد آجاتی ہے لیکن اس کا کوئی اور نسخہ نہیں ہے؟“ 
دوسرا بولا ”ہاں ہے؟“ 
”وہ کیا؟“ 
”تم اپنے بیگم یا پھر اپنی شادی کی سالگرہ بھول کر دکھاؤ…“ 
”پھر کیا ہوگا؟“ 
”پھر وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔

(جاری ہے)

“ 
”کیا مطلب؟‘ ‘ 
”وہی جو میرے ساتھ ہواتھا…“ 
”مجھے کیا معلوم تیرے ساتھ کیا ہواتھا۔ خود بتادے یار“ 
”بس ایک بار میں بیوی کی سالگرہ کا دن بھول گیا تھا اور پھر جو اُس نے سر پھٹول کی۔الامان الحفیظ… یار اتنا بھی خیال نہیں کیا کہ کام والی دیکھ رہی ہے۔
وہ دن اور آج کادن میں اس کی سالگرہ نہیں بھولا…“ 
شیخ لوگ تو خیر ویسے ہی بدنام ہیں لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ آپ کسی کو اُدھار دے بیٹھیں تو وہ ایسے بھول جاتا ہے کہ جیسے کبھی لیا ہی نہیں تھا۔ البتہ اس سے ویسے ہی بھول جانے کی بجائے جان بوجھ کر بھول جانے کی بات صاد ق ہوتی ہے۔ 
ایک دفعہ ہمارے ایک دوست جو کہ بھلکڑ مشہور تھا نہایت پریشان میں ہم سے کہنے لگا ”یار لگتا ہے میری موٹر سائیکل چوری ہوگئی ہے؟‘ ‘ 
ہم نے پوچھا ”کب اور کہاں سے چوری ہوئی ہے…“ 
بولا ”مجھے ذہن پہ زور دینے دو یاد کرنے دو کہ آخر میں کہاں کھڑی کی تھی…“ 
ہم نے کہا ”یار ذہن پہ زورنہ دو۔
ذرا ریلیکس ہوتا پھر تمہیں یاد آجائے گا کہ موٹرسائیکل کہاں کھڑی کی تھی“ 
اتنی دیر میں ہم نے کہا کہ آپ تسلی سے بیٹھوں ہم آپ کے لیے دکان سے جوس لے آتے ہیں۔ 
وہ فوراً اُٹھ کر بھاگا اور کہنے لگا ”بس جوس رہنے دو۔ تم نے دکان کا نام لیا تو مجھے یاد آگیا کہ میں بازار گیا تھا اور موٹر سائیکل وہیں دکان کے باہر چھوڑآیا تھا…“ 
یوں بعض لوگوں کے لیے کوئی حوالہ (جیسے یہاں دوست کو دکان کا حوالہ کام آیا) بھی یا دداشت واپس لوٹانے کا سبب بن جاتا ہے۔
 
سر کاری کالونیوں میں ایک ہی بلاک میں ایک ہی جیسے گھر ہوتے ہیں تو اکثر مہمان بھول جاتے ہیں کہ کون ساگھر کس کا ہے یہاں تک کہ کبھی کھی وہاں کے رہائشی بھی۔ کبھی ایسی ہی ایک کالونی میں ایک شوہر اکثر اپنا گھر بھول جایا کرتا تھا اور اسی حالت میں ایک ہمسائے کے گھر چلا جاتا تھا جس کی بیوی بہت خوب صورت تھی۔ آخر ہمسائے کو بھی شک پڑگیا کہ یہ بار بار بھول کر ہمارے ہی گھر میں کیوں داخل ہوتا ہے اور پھر اس کے بھولنے کی وہ آخری باری تھی جب خوب صورت بیوی والے ہمسائے نے اس کی تواضع چھترول سے ٹکاکے کی۔
وہ دن اور آج کا دن وہ اپنی اصلی بیوی کا گھر کبھی نہیں بھولا۔ 
کبھی آپ کا کوئی دوست دس پندہ سال کے وقفے کے بعد ملے اور اس کی ہیئت کذائی تبدیل ہوئی ہوتو اس کو اسے پہچانے میں دشواری ہوسکتی ہے جو کہ جائز ہے۔ کوئی آپ کے سامنے اتنے عرصے بعد کھڑا ہوجائے اور کہے ”مجھے پہچان“ تو آپ اُس کے چہرے پہ جمی زمانے کی تہوں کے اندر سے جواب پرانا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جواب مثبت میں ملتا ہے تو آپ اچانک کہہ آُٹھتے ہیں ”اچھا تو وہی تو ہے جو رخسانہ پر مرتا تھا…“ 
تب اُس کے چہرے بشاشت اور شرماہٹ دونوں مل کے وارد ہوجاتی ہیں اور پھر وہ زور سے آپ کو جپھی ڈال لیتا ہے۔
تاہم اگر کوئی بہت بڑے عہدے یا مقا م پہ پہنچ جائے تو پھر اُسے یاد کرانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ ایسے میں ہمارے ایک دوست کا ہم جماعت بہت بڑ الیڈر بن گیا۔ وہ کسی کام سے اُسے ملنے گیا تو پہلے تو اُس کے گارڈز نے تسلی کی کہ یہ واقعی اس قابل ہے کہ اسے ملایا جائے۔ بہر طور مختلف قسم کی رکاوٹیں عبورکرتے ہوئے جب وہ سابقہ دوست تک پہنچا تو اُسے محسوس ہو ا کہ وہ اُسے جان بوجھ کر پہچاننے سے انکاری ہے، اُس سے جب پوچھا ”جی فرمائیے، آپ کا تعارف کیا ہے؟ تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
تاہم وہ چونکہ ذرامنہ پھٹ تھا، بولا ”یاد کرو میں وہی ہوں جس کے ساتھ مل کر ماسٹر غلام علی کے تم ڈنڈے کھایا کرتے تھے۔یاد کرو میں وہی ہوں جس کے ساتھ مل کر تم چوہدریوں کے باغ سے مالٹے چرایا کرتے تھے، یاد کرو میں وہی ہوں جس سے مل کر تم نے کشمیری لڑکی کو چھیڑا تھا اور ہماری محلے والوں نے چھترول کی تھی۔ اب بھی میرا نام یاد نہیں آیا تو بتاؤں میرا نام کیا ہے؟ 
”یار…ہمایوں بس کر۔
اتنے لوگ سن رہے ہیں۔ اب معاف بھی کردے۔ میں ذرا کسی پریشانی میں بیٹھا تھا اس لیے تمہیں نہیں پہچاننے کی غلطی ہوگئی۔“ 
اونچے مقام پر جا کر نیچے والوں کو پہچاننا ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کن کن کی مہربانیوں کی وجہ سے آپ اس مقام پہ پہنچے ہیں۔ ہاں البتہ جب مشکل وقت آتا ہے تو پھر ایک ایک کر کے ہمدرد دوست یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
تب چاہے آپ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ کوئی ایم این اے ہوں یا ایم پی اے، کوئی بڑے افسر ہوں یا کوئی بڑے لیڈر تو آپ انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے ہیں، وہ جو آپ کو آپ کی جفا کے قصے سناتے تھے اور آپ کان نہیں دھرتے تھے، اب آپ انہیں انہی وفا کے قصے سنارہے ہوتے ہیں اور ووہ بے چارے شریف النفس پھر سے آپ کے ہورہتے ہیں۔محض اس لیے کہ انسان محبت و وفا کا بھوکا ہوتا ہے (اگر وہ واقعی انسان ہوتو)۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana