Episode 20 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 20 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                           آپ ٹھیک سمجھے 

فی الحال ہمیں محض تین واقعات یاد آرہے ہیں۔ انہیں غور سے پڑھ کر آپ کو ان میں مماثلت تلاش کرنا ہے۔ کہتے ہیں پیسہ خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے لیکن عقل بڑھتی ہے۔ سو ذرا سوچئے! کیونکہ عقل مند ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ 
پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک خاتون کپڑے والی دکان پہ کپڑا خریدنے گئی۔
اب بھلا آپ کہیں گے کہ کپڑے والے دکان سے آخر کپڑا ہی تو خریدنا ہوتا ہے۔ تاہم یہ دھیان رہے کہ یہ کوئی مردنہیں خاتون تھی۔ جو کپڑے والی دکان سے کچھ اور بھی خرید سکتی تھی۔ دکان کا سیلز مین خاصا خوش اخلاق تھا اور بوڑھی عورتوں کو بھی عزت سے کہتا (شررات سے نہیں) کہ بیٹھئے باجی آج آپ کونئے سے نیاڈیزائن دکھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

سو سیلزمین نے اس باجی کو کپڑے دکھانے شروع کئے۔

ایک سے ایک تھان اُتار کر پھیلا کر دکھایا مگر یہ خاتون باجی ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی اور امریکہ کی طرح اُسے ”ڈومور“ یا ”اوردکھاؤ“ کا باربار کہتی سیلزمین بیچارہ تھان اُتار اتار کر اورپھیلا پھیلا کر تھک گیا (اور اس کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ اب سارے تھان سمیٹ سمیٹ کر بھی رکھنے ہیں) لیکن خاتون تھی کہ اُس کی تسلی ہی نہیں ہورہی تھی۔آخر بے چارہ جب یہ عمل دہراتے دہراتے تھک گیا تو کہنے لگا ”خالہ جی (اب وہ باجی سے خالہ جی تک آگیا تھا کیونکہ اُس کے ناک میں دم آگیا تھا) اگلے ہفتے آنا! نئے ڈیزائن آرہے ہیں شاید آپ کو پسند آجائیں…“ 
وہ خاتون بھانپ گئیں کہ اب سیلزمین کی ہمت جواب دے گئی ہے تو اُسے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہنے لگیں ”کوئی بات نہیں تم فکر نہ کرو میں اگلے ہفتے آجاؤ ں گی… ویسے بھی میں تو یونہی وقت گزارنے آئی تھی اصل میں تو میں سبزی لینے جارہی تھی سوچا کچھ وقت یہاں گزار لوں…“ 
سیلزمین بیچارے کو اُس خاتون میں امریکہ نظر آنا شروع ہوگیا تھا کہ ڈومور کہتے کہتے وہ افغانستان سے اپنی دکان سمیٹ کر واپس چلاجائے گا کہ میں تو یونہی یہاں اپنا اسلحہ ٹیسٹ کرنے آیا تھا… 
دوسرا واقعہ کچھ یوں ہوا کہ صاحب کراچی جانے کے لیے لاہور سٹیشن سے ٹرین پرسوار ہوئے۔
برتھ بھی بک کرائی تھی دن بھر کے تھکے ہوئے تھے جلد ہی برتھ پر چڑھ کہ سوگئے۔خواب میں ڈر گئے تو آنکھ کھل گئی۔ آنکھیں ملتے ہوئے انھوں نے نیچے بیٹھے ایک صاحب سے پوچھا ”بھائی صاحب کیا حال چال ہے۔“ 
جواب ملا ”حال بھی ٹھیک ہے اور چال بھی“ 
بولے ”بھائی صاحب! آپ کہاں جارہے ہیں؟“ 
جواب ملا ”اور کہاں جانا ہے راولپنڈی جارہا ہوں…“ 
بولے ”اچھا میرے سوتے سوتے سائنس اتنی ترقی کر گئی ہے کہ اوپر برتھ والے کراچی جارہے اور انیچے والے سیٹ پہ بیٹھے راولپنڈی جارہے ہیں…“
وہ صاحب سائنس کی اس ترقی پہ عش عش کرتے سوگئے اور اتنی جلدی نیند میں چلے گئے کہ ورطہء حیرت میں مبتلا نیچے بیٹھا شخص یہ بھی نہ کہہ سکا کہ بھائی صاحب آپ غلطی سے کراچی والی نہیں بلکہ راولپنڈی والی ریل گاڑی میں بیٹھ گئے ہیں۔
 
تیسرا واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ پریڈ شروع ہونے سے پہلے افسر نے اپنے فوجی جوان سے پوچھا ”جوان ایک بات تو بتاؤ…“ 
فوجی جوان نے سلیوٹ مارتے ہوئے کہا ”جی صاحب! پوچھئے…“ 
افسر بولے”اچھا یہ بتاؤ تم اپنی بندوق صاف کرنے لگوتو سب سے پہلے کیا کام کرو گے…“ 
”جی سر میں سب سے پہلے بندوق کا نمبر چیک کروں گا۔
“ 
”وہ کیوں“ افسر نے پوچھا 
”سر وہ اس لیے کہ میں کسی اور کی بندوق نہ صاف کر بیٹھوں…“ 
آپ نے دیکھا کہ فوجی بھی سیانا ہوسکتا ہے اور جب زیادہ سیانا ہوجائے تو باقیوں کو بالکل” کملا“ جان لیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی آئی پہ آجائے تو اپنے ہی ملک پر قبضہ کر لیتا ہے۔
 
خیر آپ نے یہ تینوں واقعات پڑھ کر ذہن بنالیا ہوگا کہ ان تینوں میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے۔ یقینا آپ ٹھیک سمجھے (آپ نہ بھی سمجھے ہوں تو پھر بھی ہمیں آپ کی عقل مندی پہ کوئی شائبہ نہیں) کہ تینوں میں ایک سمت کا تعین کرنا ہے ایک راستہ چننا ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ صراط مستقیم کیا ہے یا پھر یہ کہ ہماری منزل کیاہے اور ہم منہ اُٹھائے چل پڑتے ہیں۔
تیسرے واقعے کا فوجی سب سے عقل مند (برخلاف توقع) نکلا جسے معلوم تھا کہ اُس نے کیا کرنا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ساری عمر یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ اُنہیں زندگی میں کیا بنناہے البتہ ایک بات پہ تو سارے متفق ہوتے ہیں کہ اُنہیں دولہا بننا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم کو کیریئر کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوان ایسے فیلڈ کا تعین کرلیتے ہیں کہ بہت آگے جاکے اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ تو اس پروفیشن کا غلط چناؤ کر بیٹھے ہیں۔
ماں باپ کی حسرت پوری کرنے کے لیے ڈاکٹر بن بیٹھے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو سب بے اختیاری ہے۔ خدمت کرنا ہے اور لوگوں کی باتیں سننا ہیں۔ پیسہ کمانا ہے تو بھی لوگوں کو چبھتا ہے سو وہ افسر بننے کا سوچ لیتے ہیں اور پھر سی ایس ایس کر کے جو بھی پیسہ کمائیں گے تو کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ کوئی بات بھی کہہ سکے۔ انجینئر بن کر بھی لوگ یہی سوچتے ہیں کہ افسر بن جاؤ تو کئی انجینئر ان کے نیچے کام کررہے ہوں گے۔
تاہم پھر بھی سب نے افسر تو نہیں بننا ہوتا۔ اب جوافسر بن کر سمجھتے ہیں کہ اُن سے بڑا کوئی نہیں وہ اپنے تبادلے کے لیے وزیروں،وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی نظر کرم کے محتاج ہوتے ہیں۔ سو راستہ چننے سے پہلے اور فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچئے اور جیسا کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ سوبار سوچ کر فیصلہ کرنے کے بعد اُس پہ ڈٹ جائے۔

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana