Episode 15 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 15 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                             خود کش مہمان

وہ کہنے لگے” اس وقت رات کے گیارہ سے بھی اوپر کا وقت ہوگیا تھا جب ڈاکٹر جبران کے ولیمے سے آپ سے رخصت لے کر پنڈال سے نکلا۔ پنڈال کے تھوڑا باہر گھپ اندھیرا تھا۔ میں پیدل ہی جامعہ چوک کی طرف چل دیا کیونکہ میرے پاس کوئی سواری نہیں تھی اور آپ سے گپ شپ لگاتے لگاتے سب لوگ جاچکے تھے یوں کسی سے لفٹ بھی نہیں ملی سکتی تھی۔
“ 
”پھر کیا ہوا“ہم نے ڈاکٹر ذوالفقارعلی سے پوچھا جو برطانیہ سے ہمارے بیٹے کی شادی میں شمولیت کے لیے آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب برطانیہ میں کافی عرصہ سے رہائش پذیر ہیں اور شکل سے ہی نہیں عمل سے بھی پکے پکے مسلمان ہیں۔ اُن کی گوری رنگت پہ داڑھی خوب سجتی ہے۔

(جاری ہے)

وہ عموماً شلوار قمیض میں ملبوس رہنا پسند کرتے ہیں۔ یوں بلحاظ حلیہ وہ ڈاکٹر کم اورکسی مدرسے کے مولوی زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

بلکہ جھنگ میں اُنھوں نے چنبیلی مارکیٹ میں گھر کے سامنے ہی ایک مدرسہ بھی کھولا ہوا ہے جہاں ننھی ننھی بچیاں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے تھے اور وہیں شادی کی۔ مولوی ہونے کے باوجود اور چار شادیوں کی اجازت ہونے پر بھی ایک ہی پراکتفا کیا لیکن مولویوں کی ایک عادت پہ تو ضرور عمل کیا کہ اب تک ماشاء اللہ سات بچے پیدا کر چکے ہیں آگے کاحال اللہ جانے… برطانیہ ہی سے تعلیم حاصل کی ہے اور اب بچوں کی بھی شادیاں کر چکے ہیں جنہوں نے وہیں برطانیہ ہی سے دینی تعلیم حاصل کی ہے اور اب وہ بھی بچے پیدا کررہے ہیں۔
اللہ جانے کل کلاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برطانیہ کے کسی شہر میں ایک پورا محلہ ہی اُن کے نام کر دیا جائے۔ ڈاکٹرذوالفقار علی نے ایم بی بی ایس کے بعد برطانیہ میں شروع ہونے والی پہلی سیکسالوجی میں ڈگری میں اول پوزیشن حاصل کی یقینا ازدواجی تجربہ اورتعلیمی قابلیت دونوں کام آئیں تاہم کچھ عرصہ بعد اُنھوں نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ وہ شرعی طورپر عورتوں کے سیکس کے مسائل سنتے شرماتے ہیں اس لیے اُنہیں صرف مردوں کے سیکس کے مسائل حل کرنے کا کہا جائے۔
ظاہر ہے تاج برطانیہ نے یہ درخواست مسترد کردی تو انھوں نے اپنا فیلڈہی تبدیل کردیا اور اب وہاں بہت سی سینیٹرفرنزک سائیکیٹرسٹForensic Psychiatrist ہیں اور وہاں اُن کی خاصی ڈیمانڈ ہے۔ تاہم اپنی سادہ طبیعت اور پہناوے کی وجہ سے وہ کسی مسجد کے امام نظر آتے ہیں۔ 
وہ ہمیں بتانے لگے ”جامعہ چوک پہ بھی گھپ اندھیرا تھا۔آس پاس کوئی سواری آتی نظر نہیں آرہی تھی تو میں نے سوچا انتظار کرتے ہیں شاید کوئی سواری مل جائے یا کوئی بھی لفٹ۔
تھوڑے تو قف سے خیال آیا کہ بر طانیہ میں تو اس وقت شام ہوگی تو کیوں نہ اپنی بیگم سے ہی رابطہ کرلوں۔ بیگم چونکہ شروع سے ہی وہیں رہتی ہیں سو فرفر انگریزی بولتی ہیں اور وہ بھی اصلی۔ اب میں بھی اتنا عرصہ رہ کر انگریزوں کے لہجے میں ہی انگریزی بول رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ موبائل پولیس والے موٹر سائیکلوں پہ تھوڑی دور کھڑے تھے۔ وہ قریب آتے گئے۔
میں نے سوچا یہاں ہمارے پاکستانیوں کو تو ویسے ہی ایک دوسرے کی گفتگو سننے کی عادت ہوتی ہے سو اپنی دھن میں فون پر بات کرتا رہا۔ تاہم بات کرتے کرتے مجھے احساس ہوا کہ ان پولیس والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے شاید ایمرجنسی کال کر کے مزید پولیس بلالی ہے… 
”ہائیں…“ ہمارے منہ سے حیرت سے نکلا ”پھر…“ 
”پھر میں نے اپنی گفتگو سمیٹی اور فون بند کر کے اُن کے طرف متوجہ ہوا بلکہ وہ میری طرف احتیاط سے بڑھتے ہوئے آگے آئے تو میں نے لاہندی پنجابی کے خالص جھنگوی لہجے میں ایک سے پوچھا”بھائیا! اتھوں چنبیلی مارکیٹ کان کوئی لدا لبھ ویسیں (بھائی جان! یہاں سے چنبیلی مارکیٹ کے لیے کوئی سواری مل جائے گی) …میرا اتنا کہنا ہی تھا کہ اُن کی جان میں جان آئی اور وہ سارے قہقہہ لگا کے ہنسنے لگے اور بولے ”ہم تو آپ کو کوئی خودکش بمبار سمجھ بیٹھے تھے…“ میں بھی ریلیکس ہوگیا اور ہنسنے لگا پھر ذرا فرنیک ہو کے ایک سے کہا ”یارمینوں گھر تائیں تاں چھوڑ آؤ (یار مجھے گھر تک چھوڑ آؤ) اس پہ پھر ایک قہقہہ بلند ہو اور وہ کہنے لگے کہ لگتا ہے آپ باہر سے ورنہ یہاں ہمیں کوئی جرأت کرکے یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں گھر چھوڑ آؤ، کوئی کہتا بھی تو ہم اُسے ایسی جگہ چھوڑ آتے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھتا…“ 
”یہ تو واقعی آپ نے بہت بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا کہ پولیس والوں سے موٹر سائیکل پہ گھر چھوڑنے کا کہہ دیا…“ 
ہم نے ہنستے ہوئے حیرت سے کہا۔
ڈاکٹر ذولفقار علی کہنے لگے ”میری اس بات پہ وہ مجھ سے فرینک ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ میں فون پر کونسی زبان میں گفتگو کررہا تھا… میں نے اُنہیں جب یہ بتایا کہ میں برطانیہ میں انگریزی میں اپنی بیگم سے گفتگو کررہا تھا تو وہ حیران ہو کر بولے ”ایسی انگریزی تو ہم نے پہلی دفعہ سنی ہے ہمارے گھر میں بھی پڑھے لکھے لوگ ہیں بی اے پاس بھی ہیں مگر وہ تو سادہ لہجے میں انگریزی بولتے ہیں۔
پھر وہ کہنے لگے کہ آپ کے حلیے اور گفتگو سے آپ ہمیں مشکوک لگے مگر ایک وجہ سے ہم تسلی میں تھے کہ آپ ولیمے والے ٹینٹ سے نکل کے آرہے تھے…“ 
ڈاکٹر صاحب حیران وپریشان تھے کہ یہاں داڑھی رکھنے والوں کو پولیس اس قدر مشکوک انداز سے دیکھتی ہے اور خالص دیسی حلیے والوں کی یہاں یہ قدر ہے… کہنے لگے ”تبھی تو میں نے آپ کو فون کیا تھا کہ کسی کو بھیجیں کہ وہ مجھے گھر چھوڑ آئے… ورنہ اُنہیں گھر چھوڑنے کا کہنے پہ مصر رہتا تو نجانے مجھے کہاں چھوڑ آتے۔“

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana