Episode 19 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 19 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

(۱۶)
میں نے دارالشفاء کا تمام وقت کھڑکی میں بیٹھ کر گزار دیا۔ موسم تبدیل ہوچکا تھا۔ اور آفتاب کی جان بخش شعاعیں میرے لیے کسی حد تک لطف اندوز ثابت ہو رہی تھیں۔ اپنا بھاری سرہاتھوں میں لیے کہنیوں کو گھٹنوں پر ٹیکے پاؤں کو کُرسی کے بازوؤں پر رکھے حسرت ویاس کی جیتی جاگتی تصویرنظر آرہا تھا۔ زندان کا خیال مجھے رہ رہ کر ستا رہا تھا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا، گویا میرے اعضاء میں طاقت ہی نہیں۔ کانوں میں ابھی تک ان قیدیوں کی زنجیروں کی آواز گونج رہی تھی۔
اس وقت میری انتہائی خواہش یہ تھی کہ ریاضِ ہستی کا باغبان کسی خوش الحان طائر کو میرے بالمقابل کمرہ کے بام پر لا بٹھائے۔
میرے دعا قبول ہوگئی، جونہی میری زبان سے یہ الفاظ نکلے میں نے اپنی کھڑکی کے نیچے کسی کی صدائے ہو شربا سنی۔

(جاری ہے)

یہ نغمہ کسی طائر کا نہ تھا۔ بلکہ کسی آتش نفس مغنّیہ کا راگ تھا۔ جو دردناک ترنم میں اس کو گا رہی تھی۔
میں نے اپنے سر کو اٹھایا۔ تاکہ گانا سن سکوں، راگ فضا کو حسرت والم کے جذبات سے لبریز کر رہا تھا۔
میں نے بلند شاہ بلوط کو کاٹا
مجھے شعلوں پر لوٹنے کیلئے کہا گیا
میں نے انسانی زندگی کا خاتمہ کیا
مجھے زنداں میں پھینک دیا گیا
میری رفیقہ حیات نے التجا کی
شاہ نے اسے نامنظور کردیا
مجھے ایسے کمرے میں ناچ کرنا ہے
جو درودیوار اسقف وفرش سے عاری ہو
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
مجھے تختہ دار پر لٹکنا ہے۔
میں اب کچھ نہ سُن سکا۔
زندان! آہ زندان۔ بدترین مسکن، ذلیل ترین جاہ پناہ
جیل اپنی حد نظر تک اشیاء کو زہر آلود بنا دیتی ہے۔ یہاں ہر خوبصورت چیز اپنی اصلیت اور حقیقت زائل کرلیتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک حسینہ کا آتشیں نغمہ بھی اور زندان میں تمہاری نظر کسی پرندے پر پڑے تو وہ بھی پروبال بریدہ ہوگا۔ اگر تم کسی خوشبو دار پھول کو سونگھو تو اس میں تمہیں زہر کی خاصیتیں نظر آئیں گی۔
(۱۷)
اگرجیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاؤں تو کس طرح میں ہرے بھرے کھیتوں میں دوڑتا پھروں گا۔
………………
”نہیں! نہیں مجھے دوڑنا نہیں چاہیے۔ اس طرح تو لوگ مجھ پر شک کریں گے جیل سے بھاگا ہوا قیدی سمجھیں گے۔ میں آہستہ آہستہ سر جھکا کر چلوں گا۔ ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی سیٹی بجاتا جاؤں گا اس طرح مجھے کوئی نہ پہچان سکے گا۔
جیل سے نکلتے ہی میں جیل کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں رات ہونے تک پناہ لوں گا۔ وہ جگہ بہت محفوظ ہے، کسی زمانے میں، میں اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں مینڈک پکڑنے آیا کرتا تھا۔
جب پوری طرح تاریکی مسلط ہوجائے گی تو میں وہاں سے نکل کر سیدھا انگلستان کی راہ لوں گا۔
ایک سپاہی میرے پاس گزر رہا ہے۔ اس نے مجھ سے پروانہ راہداری طلب کیا ہے۔
آہ! میرے پروردگار!! میں تباہ ہوگیا۔
او۔ ہوا میں قلعہ بنانے والے پہلے اپنی منحوس کوٹھری کی تین فٹ چوڑی پتھر کی دیوار کو توڑ۔ آہ! نا امیدی!! موت!!! بھیانک موت!!!
مجھے یاد ہے کہ میں اس وقت ایک کم عمر بچہ تھا جب میرا والد مجھے جیل کی دیوار دکھانے لایا تھا۔ مگر کسے معلوم تھا کہ میں اسی لوہے، اسی چار دیواری میں اس بے سروسامانی کی حالت میں قید کردیا جاؤں گا۔ آہ!!!

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto