
بیسویں صدی کا تان سین اور پاکستان۔۔!!
سوچتا ہوں کہ بحیثیت قوم ہم کس قدر بد بخت واقع ہوئے ہیں، کہ نہ حکمرانوں کو فرصت اور نہ عوام کو توفیق کہ وہ اپنی دھرتی کے ایسے لازوال فنکاروں کا ذکر خیر کر سکیں۔
اجمل جامی
پیر 28 اپریل 2014

(زیڈ ۔اے بخاری، پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے جو اس وقت ریڈیو پاکستان کے ڈی جی تھے)
معاملہ ٹھنڈا پڑا تو اگلے روز استاد بڑے غلام علی خان نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بخاری صاحب سے ملاقات کا فیصلہ کیا اور ان کے دفتر جا پہنچے، بخاری صاحب کو علم ہوا تو ملاز م سے کہا کہ ”بیٹھا رہنے دو اس مرا ثی کو باہر“۔
(جاری ہے)
کہتے ہیں کہ اسی دور میں ایک روز لاہور پولیس نے استاد کو روک لیا، تلاشی لی، خان صاحب اپنا تعارف کروا رہے تھے کہ پولیس والے نے سر منڈل اور طبلے دیکھ کر کہا کہ اچھا اچھا ۔۔آپ مراثی ہیں۔۔ بس ۔۔!! استاد سے فن کی اس قدر توہین برداشت نہ ہوئی، ریڈیو پاکستان کے ڈی جی جو خود کو فن شناس جانتے تھے سے لے کر پولیس والے تک خان صاحب کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔۔استاد نے ہندوستان جانے میں ہی عافیت جانی۔ اس وقت کے دہلی کے وزیر اعلی خان صاحب کے قدر شناس تھے ۔ انہوں نے خان صاحب کو بھارتی شہریت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے خان صاحب کے لیے مالا بار کے پوش علاقے میں ایک بنگلہ بھی رہائش کے لیے پیش کیا۔ اور پھر ہندوستان نے اسی 'مراثی ' کی فنی خدمات کے اعتراف میں اسے پدما بھوشن اور سنگیت ناٹک اکیڈمی جیسے اعلی ایوارڈ ز سے بھی نوازا۔
نوشاد جی، مدن موہن، ایس ڈی برمن، پنڈت جواہر لعل نہرو، لال بہادر شاستری، راج کپور، دلیپ کمار، لتا جی ، آشا جی، اور بر صغیر پاک و ہند کے سبھی نامور فنکار، گلوکار، موسیقار اور سیاستدان اُستاد کے مداح تھے۔ فیروز نظامی کے علاوہ رفیع جی استاد کے شاگرد ہوئے ہیں، ملکہ ترنم نور جہاں نے بھی کچھ عرصہ خان صاحب سے فیض پایا۔
گو کہ انسٹھ میں بخاری صاحب ریڈیو پاکستان سے رخصت ہو گئے، لیکن جنرل ایوب کے دور حکومت میں بھی آمرانہ حکم کے تحت خان صاحب اور دیگر بھارتی فنکاروں کی آواز نشر کرنے پر پابندی عائد رہی۔ خان صاحب ایسے روٹھے کہ پھر جیتے جی فقط ایک بار اپنے بھائی برکت علی سے ملنے کراچی آئے اور پھر کبھی دوبارہ پاکستان کا رخ نہ کیا۔
د و اپریل انیس سو دو کو قصور میں پیدا ہوئے ، آزادی کے وقت ہندوستان میں تھے، واپس پاکستان پلٹے لیکن حالات نے خان صاحب کو دوبارہ ہندوستان بھیج دیا۔ کہتے ہیں کہ سارنگی بجانا با امر مجبوری سیکھا، گو کہ پٹیالہ گھرانے کے چشم چراغ ہونے کے ناطے سر سنگیت سے سنگت بچپن ہی سے تھی، لیکن والد نے دوسری شادی کر لی اور یہ نظر انداز ہو گئے، روزی روٹی کمانے کے لیے عنائیت بھائی کے ساتھ سارنگی بجانا شروع کی، امرتسر میں عنائیت بھائی گا رہی تھیں تو انہوں نے مشکل سر چھیڑ دیا، سارنگی کے تار سر کی لے کو نہ چھو پائے، خان صاحب نے وہیں سارنگی توڑ دی اور کہا کہ اب میں آپ کو گا کے دکھاوں گا۔۔ اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔۔ جو گایا امر کر دیا۔
موسیقی کے رسیا بخوبی جانتے ہیں کہ کلاسیکی موسیقی مشکل اور پیچ دار تانوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن مشکل تانوں کو میٹھی آواز میں سہل بنانا صرف خان صاحب کا ہی خاصا تھا، تان ان کی پہچان بن گئی، مسلسل ریاض اور تان لگانے کے بعد گائیک کے سروں میں خشکی پیدا ہو جاتی ہے، لیکن خان صاحب کے ہاں صورتحال بالکل برعکس تھی، آواز کبھی ترش نہ ہوئی اور گلہ ہمیشہ تر رہا، گویا آواز میں دریا کی لہروں کی مانند روانی تھی، ٹھمری کو نئی جہت عطا کی، عموما گائیک راگ کے زیر و بم کو فالو کرتا ہے لیکن ان کے ہاں تمام راگ انہی کے پیروکار تھے۔ بھیروی ، درباری ، ایمن اور جے جے ونتی بہت شوق سے گایا کرتے تھے۔
استاد نے کلاسیکی کو مٹھاس اور نرمی میں بدلا، جدت دی لیکن روایات کو بھی مزید پختہ کیا، کلاسیکی میں سر منڈل کے تاروں کو راگ کے ساتھ چھیڑنا جان جوکھوں کا کام ہے، لیکن یہ صرف استاد بڑے غلام علی ہی تھے جنہوں نے نا صرف سر منڈل کو کمال مہارت سے بجایا بلکہ اس میں مزید تاروں کا اضافہ کر کے اس کے سینے سے نئے سر بھی بکھیرے۔۔ اور سر بھی ایسے کہ سر منڈل کو چھوتے تو سننے والوں کی آنکھیں رو دیتیں۔۔
استاد لوگ کہا کرتے ہیں کہ خان صاحب اونچے سر میں جاتے تو آواز رتی بھر بھی شِرل نہ کرتی، قدرت نے ایسی آواز عطا کی تھی کہ سر کے آغاز سے انجام تک دریا کی سی روانی برقرار رہتی۔ جبھی تو آپ بیسیویں صدی کے تان سین کہلائے۔ مشکل سے مشکل تان ، پلٹ اور گمک میں بھی آواز اور ریاضت کے طفیل سر میٹھا رہتا۔۔ گو کہ خیال گائیکی کے بادشاہ تھے لیکن ٹھمری کو بھی نچلی سطح پر گا کر کمال کر دیا۔
مغل اعظم کے موسیقار نوشاد اور ان کی ٹیم کے بڑوں کی خواہش تھی کہ فلم کے کچھ گانے بڑے غلام علی گائیں، استاد فلموں کے لیے گانا معیوب جانتے تھے، سوچا کہ معاوضہ ہی ایسا طلب کیا جائے کہ ادا نہ ہو پائے، تاکہ معذرت کی جاسکے، پچیس ہزار طلب کر لیا، پچیس ہزار کی ویلیو جاننے کے لیے یہ جان لیجیے کہ اس وقت رفیع جی اور لتا جی پانچ سور وپیہ معاوضہ لیا کرتے تھے، لیکن فلم والے بھی خوب فن شناس تھے، فور ا ہاں کر دی، اور خان صاحب کو مغل اعظم کے لیے گانا پڑا۔ فلم کے لیے ایسا گایا کہ اسے یکتا کر دیا۔۔
پریم جوگن بن کے سندر پیا اور چلی۔۔۔!! ( مغل اعظم کا یہ گانا ایک بار ضرور سنیے گا)
آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دو ہزار نو تک ریڈیو پاکستان پر استاد بڑے غلام علی خان کی آواز نشر کرنے پر پابندی عائد تھی، بھلا ہو ہمارے شفیق دوست جناب مرتضی سولنگی صاحب کا جنہوں نے ڈی جی ریڈیو پاکستان کے عہدے پر تعینات ہوتے ہی اس پابندی کا خاتمہ کیا اور یوں پچاس سال بعد ریڈیو پاکستان کی لہروں پر خان صاحب کی آواز سامعین کے سماعتوں سے ٹکڑائی۔
خان صاحب پچیس اپریل انیس سو اڑسٹھ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، ابھی چند روز پہلے ان کی چھیالیسویں برسی منائی گئی، حیرت ہوئی کہ ملک کے اکثر چینلز پر بڑے غلام علی خان کا ذکر سننے کو نہ ملا۔ وگرنہ کسی پتلی کمریا کی سالگرہ ہو یا پیا گھر سدھارنے کی تقریب، ہمارا میڈیا دیوانہ وار کئی کئی گھنٹے کی نشریات ایسے مناظر کی کوریج کے لیے دان دیتا ہے۔
سوچتا ہوں کہ بحیثیت قوم ہم کس قدر بد بخت واقع ہوئے ہیں، کہ نہ حکمرانوں کو فرصت اور نہ عوام کو توفیق کہ وہ اپنی دھرتی کے ایسے لازوال فنکاروں کا ذکر خیر کر سکیں۔۔ بڑے غلام علی خان صاحب کے فن پر رائے درکار تھی، ملک کے ایک انتہائی نامور گلوکار کو فون کیا ، جواب میں مایہ ناز گائیک نے کہا، ”ملنگ جی۔۔!! قسمے خان صاحب نوں اج تک نیں سنیا“۔
المیہ یہ ہے کہ اب نہ تو استاد بڑے غلام علی خان جیسے فن کار باقی ہیں اور نہ ہی بد قسمتی سے فن کے قدر دان۔ قومیں اپنے کلچر ، فن اور فنکار سے پہچانی جاتی ہیں، تاریخ ان کے ذکر کے بنا ادھوری قرار پاتی ہے، لیکن پاکستانی کلچر شاید اب الباکستانی ہوتا جا رہا ہے۔
سیاسی حکومت، عسکری طاقت اور کیمرے والی سرکار کی پریم کہانی پر تبصرہ پھر سہی۔۔!
نوٹ:( استاد بڑے غلام علی خان صاحب کے فن پر پیش کی گئی رائے صریحا جناب علی تنہا صاحب سے مستعار لی گئی ہے۔ علی تنہا ، صاحب علم ہیں، فن کے دلدادہ ہیں اور تجریدی افسانے کے ماہر ہیں۔ آپ ریڈیو پاکستان میں ڈائریکٹر آرکائیو کے عہدے پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں)
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
مزید عنوان
20veen Saadi Ka Taan Seen Or Pakistan is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 April 2014 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.