اچھا معاشرہ اور ہمارا کردار

بڑوں کا احترام ہی بچوں کے دل میں ان کی عزت اور ڈر پیدا کر تا ہے۔آجکل بچے اساتذہ سے،والدین یا کسی بڑے سے بدتمیزی کرے تو ہم لوگ خوش ہوتے ہیں،ہنستے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ بچے میں کتنا اعتماد ہے آج کل کا بچہ گھر آکر اپنے اساتذہ کی نقلیں اتارتا ہے

Sohail Raza Dodhy سہیل رضا ڈوڈھی پیر 10 فروری 2020

acha muashra aur hamara kirdar
مجھے یاد ہے کہ میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا تو ہمارے انگریزی کے استاد بہت سخت تھے اور ڈنڈے سے پٹائی کرنا تو ان کا مشغلہ تھا۔ میں تقریباًروزانہ ان کے پیریڈ میں رویا کرتا تھا، روتا اس لئے نہیں تھا کہ مجھے سبق نہیں آتا تھا بلکہ میں جماعت کے دوسرے بچوں کو مار پڑتے دیکھ کر رو نے لگ جاتا تھا یہ تھا ہمارے وقت میں استاد کی مار کا ڈر۔ اور اخترام اتنا کہ انکو رونے کی وجہ بتانا بھی نا ممکن تھا۔


ایک استاد سے ٹیویشن پڑھتا تھا کہنے کو تو وہ ٹیویشن تھی مگر اصل میں میری تربیت اور شخصیت میں میرے والدین کے بعد سب سے زیادہ کردار ان کا ہی ہے یسین جنجوعہ وہ استاد ہیں جنہوں نے مجھے نہ صرف پڑھایا بلکہ مجھے زندگی کے بہت سے معاملات کو اس وقت ڈیل کر نا سیکھایا جبکہ بچے کی عمر ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

میں انہیں سر نہیں بھائی جان کہا کرتا تھا انہوں نے کبھی مجھے مارا نہیں تھا ہاں شاید کبھی کبھار ڈانٹ ضرور پڑ جاتی تھی مگر اخترام تھا کہ ان سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ آنکھیں جھکی ہوتیں۔

ایک دفعہ سکول سے واپسی پر میں ایک ویڈیو گیم کی دکان میں گھس گیا ویڈیو گیم کھیلنے لگ گیا اچانک میرے کندھے پر ایک ہاتھ آیا مڑ کر دیکھا تو یسیٰن بھائی کھڑے تھے۔ان کو دیکھتے ہی میری ٹانگوں سے جان نکل گئی اور آنکھوں میں پانی آ گیا جیسے کہ میں کوئی گناہ کر تے پکڑا گیا ہوں۔انہوں نے مجھے کچھ نہیں کہا بلکہ دو چار گیم میں ڈالنے والے سکے تھمائے اور وہاں سے چلے گئے۔

وہ تو چلے گئے مگر میں تھا کہ سنبھل ہی نہیں پا رہا تھا۔
حرام ہے کہ میں نے ان کے جانے کے بعد ایک سیکنڈ بھی کوئی گیم کھیلی ہو، سکے دکاندار کو واپس کئے اور وہاں سے سید ھا گھر کی طرف بھاگا۔شام کو جب ان کے پاس پڑھنے گیا تو اتنا اخترام تھا کہ جاتے ہی میں نے معافی مانگی اور کہا کہ آیندہ گیم کھیلنے نہیں جاؤں گا۔وہ ہنس دئیے اور بس۔۔۔نویں جماعت میں میرے گردے کا آپریشن ہو گیا جس کی وجہ سے تقریباً پورا سال میں سکول نہ جا سکا۔

دسویں جماعت میں سکول کے بعد ایک استاد کیمسٹری پڑھانے گھر آتے تھے۔ایک دن میں سکول سے چھٹی کے بعد کرکٹ کھیلنے لگ گیا۔کھیل ہی کھیل میں پتا ہی نا چلا کہ کب شام ہو گئی۔ میری والدہ جو ہمیشہ میرا ایک ایک منٹ خیال رکھتی تھیں وہ بہت پریشان ہوئیں کہ میں گھر کیوں نہیں آیا شام کو میرے کیمسٹری کے استاد پڑھانے آئے تو والدہ نے انہیں بتایا کہ میں تو ابھی سکول سے ہی نہیں آیا۔

والدہ رو رہی تھیں کہ پتا کروں تو کدھر سے کروں۔ خیر استاد محترم نے والدہ کو دلاسہ دیا اور میر ے پیچھے سکول پہنچ گئے، میں تو ان کو دیکھ کر ڈر ہی گیا لیکن جب انہوں نے بتایا کہ میری والدہ بہت پریشان ہیں اور رو رہی ہیں۔میں اسی وقت واپس گھر کے لئے نکل آیا، جب گلی میں داخل ہوا تو والدہ کو گھر کی دہلیز میں کھڑے دیکھ کر وہیں رونے لگ گیا۔اکلوتا ہونے کی وجہ سے میری والدہ نے میرا بے انتہا خیال رکھا اور پیار کیا کبھی کچھ نہیں کہا۔

مگر میں رویا کیوں؟اپنی غلطی کا احساس والدہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اور ان کا احترام۔بڑوں کا احترام ہی بچوں کے دل میں ان کی عزت اور ڈر پیدا کر تا ہے۔آجکل بچے اساتذہ سے،والدین یا کسی بڑے سے بدتمیزی کرے تو ہم لوگ خوش ہوتے ہیں،ہنستے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ بچے میں کتنا اعتماد ہے آج کل کا بچہ گھر آکر اپنے اساتذہ کی نقلیں اتارتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بچے اپنے والدین کی نقلیں اُتار اُتار کر دیکھاتے ہیں یہاں تک ہی نہیں بلکہ والدین خود کہتے ہیں کہ فلاں فلاں کی نقل کر کے دیکھاؤ۔یہ ہے تربیت جو آجکل کے بچوں کی ہم لوگ کر رہے ہیں۔سکولوں میں بچوں سے ناچ گانا کرایا جا رہا ہے۔ٹی وی ڈرامے، کارٹون اور موبائیل پر یو ٹیوب بچوں کی شخصیت کو تباہ کر رہے ہیں اور ہم یہ سب خود اہنے بچوں کو مہیا کرتے ہیں۔ ان تمام خالات میں ہم پاکستانی ایک اچھے معاشرے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ اچھا معاشرہ ہمیشہ اچھی تربیت سے بنتا ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

acha muashra aur hamara kirdar is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 February 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.