
بہاولپور وکٹویہ ہسپتال میں اموات کا ذمہ دار کون؟
پروفیسر زمافیاکی چیرہ دستیوں کے باعث ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں14 بچے وفات پاگئے صرف ماہ جولائی میں33 بچے فوت ہوئے جبکہ اس سال کے6 ماہ میں901 بچے ہلاک ہوئے اتنی بڑی تعداد میں ہونیوالی ہلاکتیں ایک لمحہ فکریہ ہیں
منگل 4 اگست 2015

بہاول وکٹوریہ ہسپتال ریاست بہاولپورکے دورمیں قائم کیاگیا نواب بہاولپورسرصادق محمد خان خامس عباسی نے بہاولپورکے عوام کوبہترین تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کی خاطر جہاں بہاولپور میں اعلی تعلیمی ادارے قائم کیے وہاں لوگوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے ایک بہترین ہسپتال کی بھی داغ بیل ڈالی جسے نواب بہاول خان اورملکہ وکٹوریہ کے ناموں کی مناسبت سے بہاول وکٹوریہ ہسپتال کانام دیاگیا اس ہسپتال میں ریڈیالوجی سمیت ، سرجری، طب، گائنی، ٹی بی کے وارڈ بنائے گئے تھے۔ہسپتال کاایک آؤٹ ڈوربھی تھامریضوں کو ادویات ،کھانے پینے کی اشیاء اورتین وقت بہترین کھانا مفت فراہم کیاجاتاتھا۔ ریاست بہاولپورکی پاکستان میں شمولیت کے بعداس ہسپتال کانظام بھی محکمہ صحت کے پاس چلاگیا۔
(جاری ہے)
پھر اس ہسپتال میں ای این ٹی اورآئی کے شعبہ جات بھی بنادیئے گئے۔1972 میں یہاں میڈیکل کالج کے قیام کی داغ بیل ڈالی گئی توبی وی ہسپتال کوٹیچنگ ہسپتال کے طورپر میڈیکل کالج سے منسلک کردیاگیا۔
میڈیکل کالج بننے کے بعد ہسپتال کے کلینکل شعبہ جات کانظام قائداعظم میڈیکل کالج کے پروفیسروں کی نگرانی میں دے دیاگیا جبکہ ہسپتال کے انتظامی امور کیلئے یہاں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کوبرقراررکھاگیالیکن میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی آسامی محض ڈمی کی صورت اختیارکرگئی کیونکہ پرنسپل قائداعظم میڈیکل کالج کوکلینیکل شعبہ جات کاسربراہ بنادیاگیا اوراس کواتنے اختیارات دے دیئے گئے کہ وہ ہرمسئلہ کابادشاہ بن بیٹھا۔ کلینکل شعبہ جات کے پروفیسر ز، اسسٹنٹ پروفیسرز ایسوسی ایٹ پروفیسر میڈیکل کالج سے متعلق ہیں جبکہ باقی جونیئرڈاکٹر بی وی ہسپتال کے تحت کام کرتے ہیں اس طرح ہسپتال پرپروفیسر زکی اجارہ داری قائم ہوگئی اوروہ ہرطرح کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے ان کی مرضی کے بغیروارڈوں میں کوئی پرندہ بھی پرنہیں مارسکتا۔ ان سپیشلسٹ ڈاکٹروں نے سرکاری رہائش گاہوں پراپنے مطب قائم کرلیے اوروہاں مریضوں کومعائنہ کے بعد ہسپتال میں داخل کرنااور ڈسچارج کرناان کی صوابدید بن گئی آہستہ آہستہ پروفیسرز اتنے بااختیار بن بیٹھے کہ ان کی مرضی کے بغیر ہسپتال کے امورکی انجام دہی مشکل ہوکررہ گئی انہیں پروفیسر زنے پرائیویٹ ہسپتال بنالیے اور سرکاری ہسپتال میں مریضوں کوعلاج معالجہ کی سہولیات کی فراہمی محض جونیئر ڈاکٹروں کی ذمہ داری بن گئی سینئر اورسپیشلسٹ ڈاکٹروں نے وارڈوں میں آناچھوڑ دیا اورپرائیویٹ پریکٹس کے ذریعے کروڑوں روپے ماہوار بنانے لگے ان کوپوچھنے والاکوئی نہیں کیونکہ پرنسپل کیوایم سی انہیں پروفیسروں میں سے ایک پروفیسر ہوتاہے اوراکیڈمک کونسل میں شامل پروفیسر پرنسپل کواپنی مرضی نہیں کرنے دیتے ہسپتال کاایم ایس محض ڈمی بن کررہ گیااوراس کے پاس صر ف جونیئر ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی ادائیگی، ہسپتال کے سٹاف کی سربراہی اورصفائی واددیات کی خریداری کے امور رہ گئے لیکن ان امور میں بھی پروفیسروں کی مرضی کاعمل دخل ہے اس طرح ہسپتال میں ایک پروفیسر زمافیا وجود میںآ گیاجنہوں نے مریضوں پرتوجہ دینے کی بجائے اپنی پرائیویٹ پریکٹس پرزیادہ توجہ دی بی وی ہسپتال800 بسترکا ہسپتال ہے لیکن اس کی گنجائش سے دوگنے مریض وہاں داخل ہوتے ہیں جنہیں گیلریوں اور زمین پرلٹایاجاتاہے صفائی کی حالت انتہائی ابترہے مریضوں کوکوئی سینئر ڈاکٹر دیکھناگوارانہیں کرتااور بیچارے مریض ہاؤس جاب ڈاکٹرز یاپی جی آر ڈاکٹرز کے رحم وکرم پررہتے ہیں۔ پروفیسر اور سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی عدم توجہی کے باعث ہسپتال میں داخل مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کرموت کوگلے لگالیتے ہیں یاپھر ان قصابوں کے پرائیویٹ کلینکوں کارخ کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں جہاں ان کی خوب کھال اتاری جاتی ہے چندروز قبل پروفیسر زمافیاکی چیرہ دستیوں کے باعث ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں14 بچے وفات پاگئے صرف ماہ جولائی میں33 بچے فوت ہوئے جبکہ اس سال کے6 ماہ میں901 بچے ہلاک ہوئے اتنی بڑی تعداد میں ہونیوالی ہلاکتیں ایک لمحہ فکریہ ہیں لیکن اس مافیا کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی اوریہ اسے معمول کی اموات قراردینے پر مصرہیں۔ وزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے بھی ان اموات کانوٹس لیاہے لیکن ایم ایس کی بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم نے تمام الزامات کومسترد کرتے ہوئے بچوں کی ہلاکتوں کومعمول کی کاروائی قراردیاہے۔ وزیراعلی شہباز شریف کی تحققیاتی ٹیم بھی اس سانحہ کی تحقیقات کررہی ہے معلوم نہیں کہ یہ تحققیات بھی شفاف ہوں گی یااس پربھی بااثر پروفیسرز مافیااثرانداز ہوجائیگا اسوقت بی وی ہسپتال انتہائی ناگفتہ حالت میں ہے شعبہ حادثات وایمرجنسی کے انچارج کوسول ہسپتال کاایم ایس بنادیاگیاہے جوشعبہ حادثات پربالکل توجہ نہیں دے سکتا ہسپتال میں ادویات کی قلت ہے جبکہ جان بچانے والی ادویات بھی مریضوں کوبازار سے لانی پڑتی ہیں صفائی کی صورتحال انتہائی خراب ہے سینٹری انسپکٹر بھتہ خوری کرتاہے اوردیگرکاموں میں مصروف رہتاہے پروفیسروں کی کوٹھیوں پرسٹاف کی ڈیوٹیاں ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ بے لاگ تطہیر کاعمل کرکے مسیحاؤں کے بھیس میں قصابوں کوہسپتال سے نکال باہرکیاجائے۔ ان کی پرائیویٹ پریکٹس پرپابندی لگائی جائے سرکاری خزانہ سے لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والوں کومریضوں کی دیکھ بھال کاپابندکیاجائے۔ بی وی ہسپتال کے امورکی نگرانی کیلئے ایم ایس کوفری ہینڈ دیاجائے اورامور میں پرنسپل قائداعظم میڈیکل کالج کی مداخلت بندکرائی جائے مانیٹرنگ کاسخت عمل شروع کیاجائے اوراس کیلئے کمشنر ، ڈی سی او کوہسپتال کی روزانہ پڑتال کے امورسوپنے جائیں۔ حکومت عوام کوطبی سہولتو ں کی فراہمی کے بلندوبانگ دعوے توکرتی ہے لیکن ان دعوؤں کوعملی جامہ پہنانے کی راہ میں حائل ان رکاوٹوں پربھی توجہ دی جائے۔ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
مزید عنوان
BahawalPur Victoria Hospital Main Amwaat Ka Zimedar Kon is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 August 2015 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.