پاک چین مضبوط فولادی دوستی

سلامتی کونسل میں چین نے بھارت کی مستقل رکنیت کی ہمیشہ ڈٹ کر مخالفت کی

بدھ 17 مارچ 2021

Pak China Mazboot Fooladi Dosti
رابعہ عظمت
پاکستان چین آئرن برادرز کی شہد سے میٹھی‘سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند لازوال دوستی کے 70 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے تقریبات کا آغاز کر دیا ہے اس موقع پر وزیر خارجہ قریشی نے چینی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا”ہمیں یقین ہے کہ صدر شی جن پنگ کی قیادت نے چینی قوم کو قومی امنگوں کی تکمیل میں بڑی مدد کی ہے ۔

“وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور چین دونوں ممالک کے رہنماؤں اور عوام کی متواتر نسلوں نے ان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے انمول شراکت کی ہے ۔انہوں نے وبائی مرض پر قابو پانے کے لئے اینٹی کووڈ ویکسین اور دیگر سامان کی خوراکیں عطیہ کرنے پر چینی حکومت کا شکریہ ادا کیا اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے ویژن کی تعریف کی۔

(جاری ہے)

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا پاکستان چین اقتصادی راہداری کا یہ مشترکہ منصوبہ اس خطے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔

آج چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ان کے بقول چیئرمین ماؤزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔چینی وزیر خارجہ نے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ گزشتہ 70 برسوں میں چین اور پاکستان نے مل کر تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے منفرد آہنی دوستی قائم کی ہے۔


یہ دوستی دونوں ممالک کا سب سے قیمتی اسٹریٹجک اثاثہ بن چکی ہے اور اس کی جڑیں عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہیں۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ اعلیٰ سطح کے قریبی تبادلوں کو برقرار رکھا ہے۔سات دہائی قبل اس خطہ میں لانگ مارچ کی شکل میں ماؤزے تنگ کی طویل اور کٹھن جدوجہد کے نتیجہ میں عوامی جمہوریہ چین کے نام سے نئی مملکت معرض وجود میں آئی تو اس کی اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے پاکستان نے سب سے پہلے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

پھر عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان 21 مئی 1951ء کو باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے جو روز بروز نہ صرف مستحکم ہوتے گئے بلکہ لازوال دوستی میں بھی بدل گئے۔اس تناظر میں پاک چین دوستی اس خطے اور دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہے اور دونوں ممالک باہمی اقتصادی تعاون ہی نہیں‘ایک دوسرے کے دفاع کیلئے دفاعی تعاون کے بندھنوں میں بھی بندھ چکے ہیں اور ایک دوسرے کی اسٹریٹجیکل ترجیحات بھی مشترکہ ہیں۔

آزمائش کی ہر گھڑی میں برادر چین نے پاکستان کی معاونت کی اور اس کا ساتھ نبھایا جبکہ قدرتی آفات میں بھی پاکستان کے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے امدادی کاموں میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جب بھارت نے 60 ء کی دہائی میں چین کے علاقے ارونا چل پردیش میں چینی فوجوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ شروع کیا جبکہ بھارت اس متصل جموں و کشمیر پر پہلے ہی اپنا فوجی تسلط جما چکا تھا اور پاکستان کی سلامتی کے درپے تھا جس کیلئے وہ اپنے زیر تسلط کشمیر ہی کے راستے پاکستان پر آبی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا تھا تو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے دونوں نے دفاعی تعاون قائم کیا جو بعد میں فطری اتحاد میں بدل ہو گیا۔

چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے ارونا چل پردیش میں بھارتی سورماؤں کو ناکوں چنے چبوا کر انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا اور پھر جب بھارت نے ستمبر 1965ء میں پاکستان پر جنگ مسلط کی تو چین پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا۔ اس نے ہر فورم پر کشمیر موقف پر پاکستان کا دو ٹوک ساتھ دیا اور اسی طرح چین پاکستان کی نیو کلیئر سپلائزر گروپ کی رکنیت کیلئے بھی اس کی بے لوث حمایت کرتارہا اور پاکستان کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کیلئے مضبوط آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ چین نے بھارت کی مستقل رکنیت کی ہمیشہ ڈٹ کر مخالفت کی۔

منموہن سنگھ کے دور میں جب اس وقت کے بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ نے بھارت کے ایٹمی جنگی سازو سامان کے نشے میں بیجنگ اور اسلام آباد کو 96 گھنٹے میں بیک وقت برباد کرنے کی بڑھک ماری توپاکستان اور چین کے مابین دفاعی تعاون مزید مضبوط ہو گیا جو خطے کے امن و سلامتی کی بھی ضمانت بنا۔
اسی تناظر میں چین اور پاکستان کے مابین گوادر پورٹ سے منسلک اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کا معاہدہ ہوا جو آج اللہ کے فضل سے آپریشنل ہونے کے قریب ہے جس سے پاکستان اور چین ہی نہیں اس پورے خطے کیلئے اقتصادی ترقی کے دروازے کھل جائیں گے اور سی پیک سے منسلک ممالک کی عالمی منڈیوں تک رسائی ہو گی تو اس کے ذریعے عالمی اقتصادی ترقی کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔

امریکہ اور بھارت کو اس حوالے سے سی پیک ایک آنکھ نہیں بھا رہا چنانچہ امریکہ اور بھارت دونوں نے سی پیک پر تحفظات کا اظہار کرکے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی مگر چین نے ان دونوں کے تحفظات کا دو ٹوک جواب دیا۔بھارت کی مودی سرکار نے دو سال قبل پانچ اگست 2019ء کو اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی سٹیٹ یونین میں شامل کیا تو اس پر چین نے ہی سب سے پہلے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرایا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی کھل کر حمایت کی۔

اسی دوران جب بھارتی فوجوں نے لداخ کے راستے اور ناچل پردیش میں چینی فوج کے ساتھ دوبارہ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو چین نے فی الواقع بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد کرا دیا اور پھر دوسری بار ایسی ہی بھارتی کوشش پر اسے پھر انتہاء درجے کی زہمت اٹھانا پڑی۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارتی مذموم عزائم کی تکمیل کی راہ میں بے مثال پاک چین دوستی سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے جس سے ٹکرانے والی کوئی بھی بیرونی قوت پاش پاش ہو جائے گی۔


چین اور پاکستان کے تعلقات گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دفاع اور سفارتکاری سے معیشت اور توانائی تک پھیل چکے ہیں،جس سے بیجنگ اسلام آباد کا سب سے بڑا تجارتی اور دفاعی شراکت دار بن گیا ہے۔دونوں ممالک کے مابین پہلے اعلیٰ سطحی سرکاری رابطے کا آغاز پاکستان کے سابق وزیراعظم محمد علی بوگرا اور ان کے چینی ہم منصب چاؤ انیلائی کے مابین 1955ء میں انڈونیشیا کانفرنس کے بینڈنگ میں ہوا تھا۔

اس رابطے کے بعد آنے والے سالوں میں پاکستان کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے چین اور پریمیر چاؤ کے پاکستان کے متعلقہ دوروں کے بعد رابطہ کیا گیا۔تاہم 1963ء میں دونوں ممالک کے مابین سرحدی معاہدے پر دستخط کو ”آئرن برادرز“ کے مابین آج کی شراکت کی بنیاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن 1964ء میں چین کے لئے پروازیں چلانے والی پہلی غیر اشتراکی ملک کی ہوائی کمپنی بنا تھا۔

مقابل حریف بھارت کے خلاف 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں پاکستان کی حمایت کرنے کے علاوہ ،چین نے 1974ء میں ایلیٹ ایٹمی کلب میں شامل ہونے کے بعد خطے میں سیکیورٹی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے اسلام آباد کی کوششوں کی حمایت کی۔چین پر مغربی ممالک اور ان کے میڈیا کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ 1980ء کی دہائی میں خاموشی سے پاکستان کو اپنی جوہری صلاحیت کو بڑھانے میں مدد فراہم کر رہا تھا،اس کے باوجود کہ اسلام آباد تباہ حال سوویت یونین کے خلاف پہلی افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا۔

بے شک پاک چین تعلقات کی دنیا کی حالیہ سفارتی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
دسمبر 2020ء میں،بیجنگ نے سعودی عرب کی واپسی کے لئے اسلام آباد کو ایک بلین ڈالر کا نرم قرض دیا،3 بلین ڈالر کے اس قرض کی دوسری قسط جو پاکستان نے اپنے غیر ملکی ذخائر کو 2018ء میں ختم کرنے کے لئے ادھار لیا تھا۔اس کے علاوہ،چین نے پاکستان کو ال خالد،اور جے ایف تھنڈر لڑاکا طیاروں جیسی اہم جنگی ٹینک تیار کرنے میں پاکستان کی مدد کی۔

اسلام آباد نے 2017ء میں سرکاری سطح پر چلنے والی چین شپ بلڈنگ ٹریڈنگ کمپنی اور ایچ زیڈ شپ یارڈ کو چار چینی کثیر الجہتی جنگی جہازوں فریگیٹوں کا معاہدہ بھی کیا۔یہ بیجنگ ہی ہے جس نے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے اقدام کو ناکام بنایا۔نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے امریکہ کے اتحادی اور صف اول کے ملک ہونے کا کردار ادا کیا۔

جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے اسے ناقابل تلافی جانی و بھاری مالی نقصانات اُٹھانا پڑے لیکن ماضی کے تلخ تجربات کو دفن کرکے پاکستان مستقبل پر نظریں جمائے ہوئے اور اس عمل میں چین پاکستان کے شانہ بشانہ ہر اس خواب اور ہر اُس بظاہر ناممکن ہدف کے حصول میں مدد فراہم کر رہا ہے جو پاکستان کو معاشی و اقتصادی خود انحصاری کے نزدیک کر رہا ہے۔
زراعت سے دفاع اور مواصلاتی نظام سے افرادی ترقی تک چین اور پاکستان کی دوستی دو طرفہ تعاون کا ایک ایسا باب ہے جس کا ہر حرف سنہرے حروف سے لکھنے لائق ہے اور دو ہمسایہ ممالک نے عالمی سطح پر بھی دوستی و تعاون کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔

پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات دو ہمسایہ ممالک کے ایک دوسرے کی روائتی مدد اور تعاون سے کئی گنا بڑھ کر ہیں‘جو دفاعی شعبے میں تعاون سے لیکر چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)جیسے کثیر الجہتی منصوبے تک پھیلے ہوئے ہیں۔چین خطے کی ترقی کے لئے پر عزم ہے جس کی ایک مثال سی پیک تو دوسری مثال شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کی صورت دیکھی جا سکتی ہے‘جسے ’شنگھائی معاہدہ‘بھی کہا جاتا ہے جو 8 رکن ممالک‘3 مبصر ممالک‘تین ڈائیلاگ پارٹنرز اور 3 مہمان ممالک پر مشتمل ہے جس کے تین بنیادی مقاصد میں سیاسی ‘اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرنا ہے۔


ایشیائی ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کا یہ باقاعدہ آغاز 15 جون 2001ء کو شنگھائی میں سامنے آیا تاہم یہ تنظیم 26 اپریل 1996ء سے فعال ہے اور اس کے بانی ملک چین کے علاوہ پاکستان‘بھارت‘ازبکستان‘کرغزستان‘روس‘تاجکستان اور ازبکستان مستقل اراکین جبکہ افغانستان‘بیلا روس‘ایران اور منگولیا کو بطور مبصر شامل کیا گیا ہے۔پاکستان’ایس سی او‘ میں فعال کردار ادا کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

پاک چین دوستی کا نیا پہلو یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتیں(امریکہ اور چین) کے درمیان جاری سرد جنگ پاکستان کے لئے آزمائش ثابت ہو رہی ہے اور عالمی حالات ایک مرتبہ پھر مختلف نوعیت کی سرد جنگ جو عالمی اقتصادی و تجارتی مفادات و بالاتری کے لئے ہے‘ پاکستان سے صف اول کا کردار ادا کرنے کی متقاضی ہے اور دنیا کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کی ترجیح امریکہ اور چین کے درمیان کیا ہو گی؟۔

پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے اور مکمل کرنے میں چین کے تعاون کی وہ خاص اہمیت ہے‘جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ تعاون دیگر شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کے اُس دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں پاکستان کو چین کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے اور دونوں ممالک پہلے سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب دکھائی دے رہے ہیں۔کسی بھی 2 ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کی اس قدر طویل اور گرمجوش دورانیہ غیر معمولی ہے اور اس بات کا عکاس ہے کہ پاک چین دوستی ایک کے بعد ایک شعبوں کا احاطہ کرتی چلی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pak China Mazboot Fooladi Dosti is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.