بھارت جدید ڈرون ٹیکنالوجی میں سبقت کیلئے سرگرم

آذربائیجان اور آرمینیا جنگ کے نتائج دیکھ کر مودی حکومت بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے

جمعہ 3 دسمبر 2021

India Jadeed Drone Technology Main Sabqat Ke Liye Sargaram
رمضان اصغر
عوامی سطح پر ٹیکنالوجی کے اپنے تازہ مظاہرے میں انڈیا کے ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے 17 نومبر کو بہ یک وقت 25 ڈرون اُڑائے۔اپنے پڑوسیوں چین اور پاکستان کے ساتھ وقفے وقفے سے فوجی کشیدگی کے پیش نظر انڈیا ملکی سطح پر جدید ڈرون ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کے ساتھ اس شعبے میں بیرون ملک سے بھی خریداری کرکے اپنی جنگی استعداد میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے۔

عوامی سطح پر ٹیکنالوجی کے اپنے تازہ مظاہرے میں انڈیا کے ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے 17 نومبر کوبہ یک وقت 25 ڈرون اُڑائے۔اس مظاہرے میں نشانے کو چاروں طرف سے گھیرنا،منظم حملے اور کئی دیگر مشقیں شامل تھیں۔

(جاری ہے)

اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس طرح کا پہلا مظاہرہ انڈین فوج کی جانب سے اس سال جنوری میں کیا گیا تھا جس میں 75 ڈرونز نے حصہ لیا تھا۔

ان مشقوں میں جارحانہ حملے بھی شامل تھے۔
ڈی آر ڈی او نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کی لیبارٹری میں جنگ کے اس جدید طریقے میں صلاحتیں بہتر سے بہتر کی جا رہی ہیں۔ انڈیا کی جانب سے جنگی مقاصد کے لئے ڈرونز کے حصول کی کوششوں کے پس منظر میں یہ تمام پیش رفت ہو رہی ہے۔انڈیا کی مسلح افواج پہلے ہی کئی برسوں سے جاسوسی کے لئے ڈرون استعمال کر رہی ہیں جن میں زیادہ تر ڈرون اسرائیل سے حاصل کیے گئے ہیں۔

تاہم اسرائیل اور امریکہ جیسے ممالک سے حالیہ بات چیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انڈیا جلد از جلد ایسے ڈرون حاصل کرنا چاہتا ہے جو دشمن کے ٹھکانوں پر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔اس کی ایک وجہ حالیہ چند برسوں میں خطے میں سکیورٹی کی صورتحال ہے۔ڈی آر ڈی او اپنے جریدے کے ذریعے تاسف کا اظہار کر چکا ہے کہ فروری 2019ء میں پاکستان میں موجود شدت پسندوں کے مبینہ کیمپس پر انڈیا کے فضائی حملے مزید موٴثر ہو سکتے تھے اگر ان میں ڈرون شامل ہوتے۔

ویسے تو انڈیا کافی عرصے سے کوشش کر رہا ہے کہ ڈرون کے استعمال کو صرف جاسوسی تک نہ محدود رکھا جائے بلکہ انھیں حملوں میں بھی استعمال کیا جائے،تاہم آذربائیجان آرمینیا جنگ سے ملنے والے سبق کی وجہ سے انڈیا اب زیادہ جلدی میں ہے۔دنیا بھر میں فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کی فیصلہ کن فتح میں ڈرونز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انڈین میڈیا نے اس جنگ کے دنوں میں لکھا تھا کہ ملک کی فوجی قیادت نے ڈرونز کے بے تحاشا استعمال سمیت اس جنگ میں ہونے والی کارروائیوں پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔

آذربائیجان کے پاس زیادہ تر ایسے ڈرون ہیں جو اسرائیل اور ترکی میں بنے ہیں۔جبکہ انڈیا پہلے ہی اسرائیلی ساختہ ڈرون جاسوسی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔انڈیا کے صحافی شیکھر گپتا پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ پاکستان بھی ترکی میں تیار کردہ ڈرون حاصل کر سکتا ہے کیونکہ اس کے ترکی سے قریبی تعلقات ہیں۔اطلاعات کے مطابق اس سال اگست میں انڈین فرم ڈی سی ایم شری رام انڈسٹریز نے ترکی کی ڈرون بنانے والی کمپنی ڈرون ڈائنا مکس کے 30 فیصد حصص خرید لیے ہیں۔


دو نجی کمپنیوں کے درمیان اس معاہدے کو انڈین حکومت کی حمایت حاصل تھی اور استنبول میں معاہدے پر دستخط کی تقریب میں انڈین سفیر بھی شریک تھے۔انڈین میڈیا میں چھپنے والی رپورٹوں کے مطابق انڈیا کے پاس جو اسرائیلی ساختہ جاسوس ہیرون ڈرونز ہیں ان کو بھی مسلح کرنے کا عمل انڈیا میں شروع کیا جا چکا ہے۔حالیہ برسوں میں انڈیا نے امریکی پریڈیٹر اور ریپر ڈرونز کی طرز پر اسلحے سے لیس ایسے ڈرونز کی ایک پوری فوج تیار کرنے کی اپنی کوششیں تیز کی ہیں جنھیں وہ دشمن کے خلاف فوجی آپریشن میں استعمال کر سکے۔

اسی سلسلے میں امکان ہے کہ انڈیا امریکہ کی وہ پیشکش قبول کر لے جس کے تحت ایم کیو نائن ریپر ڈرون کی سکائی گارڈین اور 10 سی گارڈین قسموں والے ڈرون انڈیا کو ملیں گے۔ان ڈرونز کی قیمت تین ارب ڈالر ہے۔انڈین میڈیا کے مطابق انڈیا کی جانب سے ان ڈرونز کو خریدنے کا آرڈر اس سال دسمبر تک دیا جا سکتا ہے۔انڈین میڈیا میں چھپنے والی رپورٹوں کے مطابق انڈیا کے پاس جو اسرائیلی ساختہ جاسوس ہیرون ڈرونز ہیں ان کو بھی مسلح کرنے کا عمل انڈیا میں شروع کیا جا چکا ہے۔

یہ ڈرون گزشتہ ایک دہائی سے انڈیا کے زیر استعمال ہیں۔اسرائیل اور انڈیا کے اس مشترکہ پروجیکٹ کے تحت چار سو دو ملین ڈالر کی لاگت سے ان ڈرونز کو لیزر گائیڈڈ بموں،فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں اور اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائلوں سے لیس کیا جائے گا۔
آکاش‘زمین سے فضا تک مار کرنے والا ایک میزائل ہے جو 25 کلو میٹر کے فاصلے پر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ 95 فیصد انڈیا میں تیار کیا جانے والا میزائل ہے۔یہ میزائل 2014ء میں انڈین فضائیہ میں شامل کیا گیا تھا۔ایک سال بعد، 2015ء میں اس میزائل کو انڈین آرمی کو بھی دیا گیا تھا۔اس کی تیاری میں تقریباً 25 سال کا وقت لگا ہے۔بہرحال انڈین حکومت کی طرف سے جاری کردہ معلومات میں یہ ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ حکومت یہ میزائل کن ملک کو فروخت کرنے جا رہی ہے۔

لیکن حکومت نے یقینی طور پر کہا ہے کہ آکاش میزائل‘اتحادی ممالک‘کو فروخت کیا جائے گا اور یہ اس میزائل سے مختلف ہو گا جو انڈین فضائیہ اور فوج کے پاس ہے۔انڈیا کی مرکزی حکومت نے 2024ء تک دفاعی برآمدی صنعت میں پانچ ارب ڈالر حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔لیکن یہ ملک دنیا بھر میں خود ہتھیاروں کے درآمد کرنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ایک تھنک ٹینک ہے جو دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر نظر رکھتا ہے۔اس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء سے 2019ء کے درمیان انڈیا دنیا میں دوسرا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک تھا۔اس کے ساتھ ہی دفاعی ساز و سامان کی درآمد و برآمد کا جغرافیائی سیاسی حالات،طاقت کے توازن،برآمد کنندہ اور درآمد کرنے والے ملک کی داخلی سیاست اور عالمی قوتوں پر زیادہ انحصار ہوتا ہے۔

دنیا کے بڑے اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں ایک خاص قسم کی فضا ہے جو اسلحہ کی برآمد کے لئے موزوں ثابت ہوتی ہے۔ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا ایک ایسا نظام بنا سکتا ہے جو ملک کو اسلحے کے بڑے برآمد کنندگان میں شامل کر سکتا ہے۔
انڈیا اس وقت اسلحہ برآمد کرنے کے شعبے میں داخل ہو رہا ہے جب اسلحہ کی روایتی مارکیٹ پر امریکہ،روس،چین اور اسرائیل کی اجارہ داری ہے۔

اور اس مارکیٹ میں انڈیا کو جگہ بنانے کے لئے ان ممالک کی حیثیت،اسٹریٹجک قابلیت اور تجربے کا مقابلہ کرنا ہو گا۔لیکن یہ وہ وقت بھی ہے جب پوری دنیا میں جنگ لڑنے کا طریقہ تیزی سے بدل رہا ہے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے ناگورنو قرہباخ کے متنازع علاقے پر گزشتہ سال دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جنگ میں چھ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ترکی کی حمایت یافتہ آذربائیجان کی فوج نے اس خطے کے بڑے حصے پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی جسے بین الاقوامی سطح پر آرمینیا کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔آرمینیا نے روس سے کہا کہ وہ آذربائیجان کے خلاف اُن کی علاقائی خود مختاری کے دفاع میں مدد کرے۔واضح رہے کہ سابق سویت یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے آرمینیا روس کا اہم سکیورٹی اتحادی ہے۔

بعد میں آرمینیائی اور روسی وزارت دفاع دونوں نے کہا کہ روسی ثالثی میں جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔آذربائیجان نے اس معاملے پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔اس سے قبل آرمینیا نے آذربائیجان کے فوجیوں کو تازہ لڑائی چھیڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کہا تھا کہ آذربائیجان نے ان کے 12 فوجیوں کو پکڑ لیا ہے۔آرمینیا نے فوری طور پر ہلاکتوں کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کی لیکن پارلیمنٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ ایڈورڈ آغاجانیان نے کہا کہ ممکنہ طور پر تازہ جھڑپ میں 15 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے آرمینیا پر‘ریاستی سرحد پر کالجر اور لاچین کے علاقوں میں آذربائیجان کے خلاف بڑے پیمانے پر اشتعال انگیزی‘کا الزام لگایا ہے۔
آذربائیجان نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمینیا نے ’زیادہ فائدہ مند پوزیشن لینے‘ کے لئے’ اچانک فوجی آپریشن شروع کر دیا‘ لیکن ان کا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔لیکن آرمینیا کی وزارت خارجہ کے مطابق،آذربائیجانی افواج نے مئی میں شروع ہونے والی پالیسی کے حصے کے طور پر مشرقی سرحد پر حملہ کیا جس کا مقصد دو آرمینیائی علاقوں،جنوب مشرق میں سیونک اور مشرق میں گیوغار کونک میں در اندازی کرنا تھا۔

ان کی 44 روزہ جنگ کے ایک سال بعد یہ تازہ ترین کشیدگی آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان امن معاہدے کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔اس کی واحد سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آذربائیجان ایک راہداری چاہتا ہے جو اس کے ایکسکلیوٹخچیوان تک جائے اور بالآخر اس کی سرحد اس کے اتحادی ترکی سے جا ملے۔اس نام نہاد زنگازور کو ریڈور کو آرمینیائی سر زمین سے گزرنا ہو گا،لیکن آرمینیا کو آذربائیجان کے زیر کنٹرول اپنی سر زمین پر کسی سڑک کا ہونا قبول نہیں ہے۔

سیاسی طور پر یہ آذربائیجان کے رہنما الہام علیئیف کے لئے اہم ہے،جنہوں نے رواں سال کے شروع میں عہد کیا تھا کہ وہ آرمینیا کو راہداری کے حوالے سے چھوٹ دینے پر ’مجبور‘ کریں گے۔
کوئی بھی ملک امن معاہدے کی پاسداری کے لئے پُرعزم دکھائی نہیں دیتا اور دونوں اپنے فوجی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔تاہم فی الوقت کم از کم ان کے درمیان سفارتی رابطے نہیں ٹوٹے ہیں۔

مسٹر مشیل نے کہا کہ انہوں نے صدر علیئیف اور آرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینیان کے ساتھ بات چیت میں ’فوری طور پر کشیدگی کم کرنے‘ پر زور دیا ہے۔گزشتہ سال نومبر میں ہی روس کی ثالثی میں ایک امن معاہدہ طے پایا تھا اور تقریباً 2,000 روسی امن دستے ناگورنو قرہباخ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں گشت کے لئے تعینات کیے گئے تھے۔ سوویت یونین کے دم توڑتے آخری سالوں میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان بنیادی طور پر نسلی۔

آرمینیائی ناگورنو۔قرہباخ کے علاقے پر ایک خونی تنازعے شروع ہو گیا تھا۔آرمینیا مسیحی اکثریت والا ملک ہے جبکہ آذربائیجان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ترکی کے آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جبکہ روس کا آرمینیا کے ساتھ اتحاد ہے۔اور اس صورتحال کو بھارت گہری نظر سے دیکھ رہا ہے اور صلاحیت کو بڑھانے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

India Jadeed Drone Technology Main Sabqat Ke Liye Sargaram is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 December 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.