افغانستان میں قیام امن کا”ادھورا خواب“

غنی انتظامیہ کی غفلت سے 2.4 ارب ڈالرز کے منصوبے تباہ و برباد ہو گئے

جمعرات 18 مارچ 2021

Afghanistan Mein Qayyam e Aman Ka Udhora Khawab
محبوب احمد
امریکہ نے جب 9/11 کے بعد افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ چند روزہ جنگ 2 دہائیوں پر مشتمل ہو جائے گی۔عسکری طاقت کے زعم میں واشنگٹن اور اس کے اتحادی ممالک کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ افغانستان میں من پسند مفادات حاصل کرنے میں انہیں کن کٹھن راستوں سے گزرنا پڑے گا یہی وجہ ہے کہ جہاں نتائج توقعات کے برعکس نکلے وہیں شکست کے باعث ہونے والے مالی نقصانات نے ان ممالک خاص طور پر سپر پاور امریکہ کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اسی امریکی کمزوری کا فائدہ کٹھ پتلی کابل انتظامیہ نے بھرپور طریقے سے اٹھایا کیونکہ خود امریکی اداروں نے مالی بے ضابطگی و فراڈ پر مشتمل ان گنت رپورٹس جاری کی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں امن کے راستے میں غنی حکومت کے ایسے بیشتر کرپٹ اراکین حائل ہیں جنہوں نے ایک جانب امریکہ سے مالی مفادات جبکہ دوسری جانب پاکستان کے خلاف بھارت سے بھی بھارتی فنڈز حاصل کئے اور اس کا بھارت خود اعتراف بھی کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردی کے نام پر کالعدم تنظیموں اور گروپوں کو فنڈنگ کرتا ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ کو افغان جنگ میں 2001ء سے اب تک 20 ارب ڈالر سے زائد نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں تعمیر نو کے مختلف پروگرامز کے لئے تقریباً 134 ارب ڈالر کی منظوری دی گئی تھی لیکن ان منصوبوں کا جب جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ کل بجٹ کے 30 فیصد یعنی 63 بلین کے اخراجات میں سے 19 بلین ڈالر کرپشن کیلئے ناجائز استعمال پر خرچ کئے گئے صرف جنوری 2018ء سے دسمبر 2019ء تک تقریباً 1.8 ارب ڈالر فراڈ میں ضائع ہوئے۔

2008ء میں امریکی حکومت نے ایک ادارہ ”اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن“ قائم کیا جس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ نظر رکھے کہ افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں پر لگنے والی رقم کیسے اور کیونکر خرچ ہو رہی ہے اس سے 197 اہلکار وابستہ ہیں جس کا سربراہ ”اسپیشل انسپکٹر جنرل کہلاتا ہے۔امریکی ادارے کی اب حالیہ رپورٹ میں افغانستان کی تعمیر نو کے لئے ملنے والے 2.4 ارب ڈالرز پر شب خون مارنے کے حوالے سے جو انکشافات منظر عام پر آئے ہیں اس سے غنی انتظامیہ کی کارکردگی کا پول کھل کر سامنے آگیا ہے۔

مقام افسوس ہے کہ ثقافتی،سماجی،معاشی اور معاشرتی ضروریات کو مد نظر رکھ کر نہ بنائے جانے والے اربوں ڈالرز کے منصوبوں سے افغانستان میں تاحال انفراسٹرکچر کی مکمل بحالی نہیں ہو سکی۔
افغانستان کے صوبوں بغلان،بلخ،فرح،غزنی،ہرات،جوزگان،کابل،قندھار،خوست،قندوز،لغمان،نگرہار،نمروز،پکتیکا،پکتیہ اور پروان میں بنائے گئے درجنوں تعمیراتی منصوبے جن میں سکول،ہسپتال اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانے شامل ہیں سرکاری سطح پر غفلت، استعمال نہ کئے جانے،غیر معیاری تعمیراتی کام یا پرتشدد کارروائیوں یعنی کے جنگ کی وجہ سے یا تو تباہ ہو گئے یا زبوں حالی کا شکار ہیں،ان میں سے بعض ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جن کو مکمل تو کر لیا گیا لیکن وہ کبھی استعمال نہیں ہوئے یا ان کو اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا گیا جن کے لئے وہ بنائے گئے تھے۔

یاد رہے کہ 2020ء میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ غنی انتظامیہ نے کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کے بجائے بین الاقوامی برادری کے لئے کاغذی کارروائی میں زیادہ دلچسپی رکھی۔مئی 2016ء میں بھی افغانستان کی تعمیر نو کے سلسلے میں جان ساپکونے 236 صفحات پر مشتمل ایک خصوصی رپورٹ جاری کی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ جابجا پھیلی کرپشن کی وجہ سے ”افغانستان میں تعمیر نو کی بین الاقوامی کوششیں ناگفتہ بہ حالت میں ہیں“۔


امریکی ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس نے 67 لاکھ ڈالر کی مالیت سے جلال آباد میں فوج کے علاقائی تربیتی مرکز میں خواتین کی تربیت کے لئے ایک احاطہ بنایا لیکن افغان حکومت کی طرف سے تربیت پر پابندی کے باعث اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔افغان صوبوں غزنی، ہلمند اور قندھار میں موبائل فون سروس اور افغانستان میں ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات کے لئے 72 لاکھ ڈالر سے کمیونیکیشن ٹاورز لگائے گئے لیکن ان کو چلانے کے لئے جو رقم درکار تھی اس کا صحیح طور پر اندازہ نہیں لگایا گیا اور جو رقم مختص کی گئی تھی وہ ناکافی تھی جس کی وجہ سے انہیں کبھی استعمال میں نہیں لایا جا سکا۔

امریکی محکمہ انصاف نے مئی 2020ء میں ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ”جی 222 ایئر کرافٹ پروگرام“ میں جو ناکامی ہوئی اس میں کسی پر فوجداری یا سول مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ 54 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سے دوبارہ استعمال کے قابل بنائے گئے جو 20 جی 222 طیارے اٹلی سے افغانستان کی مسلح افواج کے لئے خریدے گئے تھے ان میں سے 16 ٹرانسپورٹ طیارے چند سال ہی میں ناکارہ قرار دئیے جانے کے بعد صرف 40 ہزار ڈالر میں فروخت کر دئیے گئے۔

نومبر 2006ء میں امریکہ کی سینٹرل کمانڈ ایئر فورس نے افغانستان کی افواج کے لئے ”میڈیم لفٹ“طیاروں کی ضرورت کو محسوس کیا۔
امریکی فضائیہ یو ایس ایف نے فیصلہ کیا کہ اٹلی کی فضائیہ کی طرف سے ریٹائر کئے جانے والے طیاروں کو ایلینا نارتھ امریکہ نامی ایک کمپنی کے ذریعے خرید ہ جائے۔افغانستان سکیورٹی فورسز فنڈ اے ایس ایف ایف کے لئے مختص کی گئی رقم کو 30 ستمبر 2008ء تک خرچ کرنے کی مدت ختم ہونے سے پہلے یہ ٹھیکہ دینے کی جلدی میں حکام نے متعلقہ قواعد ”فیڈرل ایکوزیشن ریگولیشن“کو پس پشت ڈال کر ستمبر میں اس واحد کنٹریکٹر کو یہ ٹھیکہ دے دیا،نومبر 2009ء سے مارچ 2013ء تک 16 طیارے کابل انٹرنیشنل ہوائی اڈے جبکہ 4 جرمنی میں ریمسٹین کے فوجی ہوائی اڈے پر پہنچا دیں گے ان طیاروں کے بارے میں ہوا بازوں اور ان کی مرمت کرنے والے عملے کی طرف سے جلد ہی شکایتیں موصول ہونا شروع ہو گئی اور ایسے نقص اور خرابیاں سامنے آنے لگیں جن کی وجہ سے ان کے بارے میں سکیورٹی خدشات بھی ظاہر کئے جانے لگے ان طیاروں کی خریداری کے کنٹریکٹ میں کئی ایسی شقیں شامل تھیں جن کے تحت مذکورہ کمپنی کو طیاروں کی مکمل دیکھ بھال، مرمت،اضافی پرزہ جات اور ہوا بازوں کی تربیت میں بھی تعاون جیسی سہولیات فراہم کرنا تھیں لیکن یہ پورا کنٹریکٹ طیاروں کو 2014ء میں سکریپ کرکے فروخت کر دینے کی وجہ سے ختم کر دیا گیا۔


سابق افغان صدر حامد کرزئی نے 2012ء میں ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ امریکہ اور نیٹو ممالک افغانستان میں کرپشن اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ افغان تاجروں کو بڑے بڑے ٹھیکے دے کر اس کے انتظامات کرنے کے اقدام سے ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔افغان طالبان کا بھی روز اول سے یہی دو ٹوک موقف رہا ہے کہ ”امریکہ اور یورپ کی طرف سے مقرر کردہ بلکہ مسلط کردہ انتظامیہ کو نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ان کے پاس اتنا اختیار اور قوت ہے کہ افغانستان پر جاری استعمار کے خاتمہ کے لئے بروئے کار آئے اور ملک وملت کے مستقبل کے بارے فیصلہ کر سکے لہٰذا بات ہم ان سے کریں گے جو جنگ کی جڑ ہے اور جس نے ظالمانہ جارحیت سے وطن عزیز پر قبضہ کر رکھا ہے“۔

دوحہ معاہدہ میں ملک کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔امریکہ نے اب بھی اس پر یقین دہانی کرائی ہوئی ہے کہ افغانستان کے مستقبل اور بین الافغان مذاکرات سمیت افغانستان کے کسی بھی قومی اور ملی ایشو میں وہ مداخلت نہیں کرے گا لیکن بظاہر دیکھا جائے تو امریکہ نے عراق پر بھی یہ کہتے ہوئے حملہ کیا تھا کہ وہ عوام کو ایک آمر حکمران صدام سے نجات دلانا چاہتے ہیں بعد ازاں وہ دھوم دھڑکے سے عراق کی تعمیر نو میں مصروف ہو گئے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ عراق کی تعمیر نو تو کیا ہونی تھی الٹا یہ اسلامی ملک خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ ونسلی فساد کا نشانہ بن گیا بالکل ایسے ہی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا نعرہ لگا کر افغانستان میں محاذ آر ائی کا ایسا بازار گرم کیا گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے ممالک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شام،افغانستان،عراق،کشمیر،فلسطین، بوسنیا،چیچنیا،یمن،برما،اردن،مصر،شمالی کوریا اور مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جو خانہ جنگی کی بری طرح لپیٹ میں ہیں کی موجودہ تباہ حال صورتحال کا ذمہ دار صرف امریکہ ہی ہے جس کا اعتراف آج اس کے اتحادی بھی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں تعمیر نو کے حوالے سے سپیشل انسپکٹر جنرل جان ساپکو کی خصوصی رپورٹ جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکیوں اور اس کے حواریوں کا جاری کردہ تعمیر نو پروگرام بری طرح ناکام ہو چکا ہے کیونکہ اس سے افغان خطے میں غریب افغان عوام کی حالت تو نہ سدھر سکی البتہ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر افغانی کروڑ پتی اور ارب پتی ضرور بن گئے ہیں لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan Mein Qayyam e Aman Ka Udhora Khawab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.