بلیک ہول ،کائنات کے اندھےکنوئیں

بلیک ہول کی شدید قوتِ ثقل کی وجہ سے ہر چیز اس میں ذم ہو جاتی تھی، اسلئے جب بھی ماضی میں اسکو دیکھنے کی کوشش کی گئی وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ بلیک ہول پر پڑنے والی تمام شعائیں اس میں جذب ہو جاتی ہیں

ڈاکٹر حامدمرچنٹ، جامعہ ہڈرسفیلڈ، انگلینڈ جمعہ 9 اکتوبر 2020

Black Hole
سائنسدان بلیک ہول کے بارے میں ذمانے سے جانتے ہیں  مگر آ ج سے پہلے کبھی اسکو دیکھ نہ پائے۔ آئنسٹائن خودبھی بلیک ہول کی موجودگی سےمکمل طور پر قائل نہیں تھا مگر  دیگر سائنسدانوں نے بلیک ہول کی پیشن گوئی آنسٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی ہی کی مدد سے کی  اور بلیک ہول کا دیکھا جانا اس تھیوری کی ایک اور دلیل ہے۔ بلیک ہول کی شدید قوتِ ثقل کی وجہ سے ہر چیز اس میں ذم ہو جاتی تھی،  اسلئے جب بھی ماضی میں اسکو دیکھنے کی کوشش کی گئی وہ کامیاب نہ ہوسکی۔

بلیک ہول پر پڑنے والی تمام شعائیں اس میں    جذب ہو جاتی ہیں اسلیئےروشنی کا انعکاس نہیں ہوتا ، چنانچہ   بڑی بڑی فلکیاتی دوربینیں بھی اسکو دیکھنے میں  اب تک ناکام رہیئں ۔
حال ہی میں سائنسدان اسکی تصویر لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

  اس پروجیکٹ کا نام ایونٹ ہوریزون ٹیلیسکوپ رکھا گیا۔اس کام کو سرانجام دینے کےلیئے سائنسدانوں کی ایک بڑی ٹیم نے دنیا کے مختلف  کونوں سے  اجتماعی طور پر اپریل  ۲۰۱۷ ؁  ءمیں تقریباً آٹھ خلائی دوربینوں کو بین وقت استعمال کیا اور جو معلومات جمع کی اسکو  بے تحاشہ کمپیوٹر ہارڈ ڈسکوں میں محفوظ کیا۔

یہ ریڈیو توانائی والی دوربینیں ساؤتھ پول، یورپ، ساؤتھ امریکہ، افریکہ، نارتھ امریکہ اور آسٹریلیا میں نصب کی گئی تھیں۔  یہ معلومات اتنی ذیادہ تھیں کہ جدید فا ئبر آپٹکس ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کےذریعے بھی  بھیجنی نا ممکن تھیں ۔تقریباً آدھے ٹن وزنی کمپیوٹر ہارڈ ڈسکوں کو دنیا کے کونے کونے  سے امریکہ میں مقیم  ایم آ ئی ٹی کی ہیسٹیک آبزرویٹری میں جمع کرتے ہوئے تقریبا آدھا سال لگ گیا۔

  اس معلومات کے خزانے کا مطالعہ کرنا اور اسکو یکجا کر کے ایک تصویر کی صورت دینا کوئی آسان کام نہ تھا اور موجودہ دور کے کمپیوٹر سائنسدانوں کے لیئے ایک بڑےچیلنج سے کم نہ تھا۔   اس کام کے لیئے ایک تداخل پیما  ئی یعنی انٹر فیرومیٹری  کا استعمال کیا گیا۔   اس کام کو سرانجام دینے کے لئے ایم آئی ٹی کی ایک طالبِ علم کیٹی بوئمن نے ایک حساب وشمار کا الگورتھم مرتب دیا۔

  چونکہ بلیک ہول سے روشنی کا انعکاس نہیں ہوتا اسلیئے عام طریقے سے اسکی تصویر کھینچنا ناممکن تھا، لہٰذا اس کام کو کرنے کے لیئے جو طریقہ اختیار کیا گیا اسکی مثال ایسی ہے جیسے کسی تالا ب میں ایک پتّھر پھینکنے سے جو لہریں پیدا ہوں ان لہروں کی مدد سے پھینکے جانے والے پتھر کا پتا لگایا جائے۔ اس تصویر کی تشکیل میں ایک سال سے زائد عرصہ لگا اور سائنسدانوں کی چار مختلف ٹیموں نے  اس  کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے بلیک ہول کی چار الگ الگ تصویریں  تشکیل دیں تاکہ کسی بھی غلطی کا امکا ن نہ رہے اور تما م تصویروں میں  باہمی ہم آہنگی کے بعد ہی ایک یقینی تصویر کو منظرِعام پر لایا گیا۔


اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر شیپرڈ ڈولمین کا کہنا ہے کہ’’اپریل ۲۰۱۷؁ ءمیں ایونٹ ہوریزون کے تمام ڈش انٹینا بیک وقت حرکت میں آئے اور گھوم کرذمین سے تقریباً ۵۵ ملین نوری سال دور ایک کہکشاں میسئر ۸۷ کی طرف  مرکوذ ہو کراس کی وسط میں موجود بلیک ہول کی  معلومات جمع کرنے میں کامیاب ہوئےا ور آج ہم دنیا کو یہ بتاتے ہوئے بہت خوش ہیں کہ ہم نے وہ چیز دیکھ لی ہے جسے ہم عرصے سے نا قابلِ چشم سمجھتے رہے‘‘۔


 دیکھا جانے والا یہ بلیک ہول کہکشاں ایم ۸۷ میں واقع ہے جو کہ سورج سے چھ بلین گنا ذیادہ بڑا ہے۔ ہماری اپنی کہکشاں ملکیوے میں واقع بلیک ہول جسکا نام سیجیٹیرئس اے سٹار ہے ، یہ  چار ملین سورج جتنابڑاہےاور اسے  ابھی تک نہی دیکھا جاسکا ،مگر ایونٹ ہوریزن بہت جلد یہ خوشخبری بھی دینے والا ہے۔
بلیک ہولز درحقیقت کائنات میں موجود کوئی سوراخ  یا خلا نہیں ہیں۔

مگر   چونکہ انکے آر پار نہیں دیکھا جاسکتا ، اس میں روشنی داخل ہوکر کھو جاتی ہے اور منعکس نہیں ہوتی اور اسکے ارد گرد تمام کائناتی اجزاء اسمیں گر کرگم ہوجاتے ہے الیئے اسے اصتلاحاً بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ کائنات کا بلیک ہول درحقیقت ایک ٹھنڈا سورج ہے۔  
جس طرح سورج ایک ستارہ ہے اور اسکی اپنی روشنی اور کشش کی وجہ سے نطامِ شمسی قائم ہے، اسی طرح کائنات میں بے تحاشہ سورج نما ستارے موجود ہیں جنہیں ہم آسمان پر بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔

  ہم نے اکثر  ٹوٹتے تارے بھی آسمان پر دیکھے ہیں۔  دنیا میں ہر چیز اک دن فنا ہونے والی ہے۔ اسی طرح ستارے بھی آہستہ آہستہ اپنی روشنی اور کشش کھوتے رہتے ہیں اورآخر ایک دن ٹھنڈے سورج کی مانند کائنات میں فنا ہوجاتے ہیں۔ انکی کشش اور توانائی کی کمی کی وجہ سے  انکے اطراف میں گردش کرنے والے سیّارے اور چاند  اپنے مدار سے منحرف ہوجاتے ہیں اور آپس میں تصادم کے نتیجے میں بننے والا ملبہ اس ٹھنڈے تارے پر گر کر بھسم ہو جاتا ہے۔

   اگر ہم بلیک ہول کی تصویر کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں نطامِ شمسی کی طرح ایک سیاہ فام ٹھنڈے تارے کے گردرنگین گیس و گرد کے حصار  گھومتے نظر آئیں گے جو آہستہ آہستہ اسکے  سیاہ مرکز میں فناہو جاتے ہیں۔
ہمارا نظامِ شمسی ملکی وے نامی ایک کہکشاں کا حصہ ہے جس میں سورج کی طرح بے تحاشہ ستارے اور ان ستاروں کے گرد انکے سیّارے اور چاند گردش کرتے رہتے ہیں۔

ہماری کہکشاں کے مرکز میں بھی ایک بلیک ہول موجود ہے جسکی تصویر بھی جلد منطرِعام پر آنے والی ہے۔ ہمارا سورج بھی اک دن اپنی روشنی ماند پڑ جانے کی وجہ سے  ایک ٹھنڈے سورج میں تبدیل ہو جائے گا اور اس دن نطامِ شمسی کا توازن بگڑ جائے گا۔ ذمین اور دیگر سیارے یا تو آپس میں تصادم کے نتیجے میں تباہ ہو جائیں گے یا پھر خوش قسمتی سے کوئی سیّارہ بٹھک کر کسی اور سورج کے ذیرِکشش آجائے گا۔

قدر ممکن ہے کہ سورج سے قریب ترین سیاروں کی موت واقع ہو، جسے ہم روزِقیامت سے تشبیہح دے سکتے ہیں۔ سانئنسدانوں نے جس بلیک ہول کو آ ج دیکھا ہے ،اسکی نشاندہی آسمانی کتابوں میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں تفصیلاً بیان کرتا ہے کہ کس طرح کائنات میں سورج اور دیگر ستارےاُس کے حکم پر ایک نطام سے چلتے ہیں اور سورج کی روشنی سے زندگی اسکے حکم سے رواں دواں ہے۔

قرآن یہ بھی بیان کرتا ہےکہ کس طرح روزِ قیامت ذمین روئی کے گالوں کی طرح ٹوٹ کر بکھرتی نطر آئے گی ۔ پچھلی سرکش قوموں کے زوال کے قصّےبھی ہم نے پڑھےہیں۔     سائنسدانوں کی جاری کردہ بلیک ہول کی یہ تصویردرحقیقت ہمیں کسی طاقتور سورج کے ٹھنڈا ہونے اور کئی   ذمینوں کے اختتام کی یہ داستان یاددلاتی ہے ۔

۵۵ ملین نوری سال دور کہکشاں میسئر ۸۷کے بلیک ہول کی حالیہ جاری کردہ تصویر    

ایم آئی ٹی کی طالبِ علم کیٹی بوئمن اور فلکیاتی دوربینوں سے محصول معلومات بمحفوظ کمپوٹر ہارڈڈسکز

ملِکی وے کہکشاں اور مرکز ی سیجیٹیرئس اے سٹار بلیک ہول

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Black Hole is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 October 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.