”او آئی سی“ کا کھوٹا سکہ چل گیا

افغان بحران پر قابو پانے کیلئے عالمی برادری کو بیرونی اثاثے اور امداد بحال کرنا ہو گی

جمعہ 7 جنوری 2022

OIC Ka Khota Sikka CHal Giya
راؤ محمد شاہد اقبال
مشہور مثال ہے کہ ”کبھی وقت پڑے تو کھوٹا سکہ بھی چل جاتا ہے“یہ ضرب المثل اسلام آباد میں حال ہی میں ہونے والی منعقدہ او آئی سی کانفرنس کے اجلاس پر پوری طرح سے صادق آتی ہے کیونکہ او آئی سی تنظیم روزِ اول سے ہی عالم اسلام کا وہ کھوٹا سکہ ثابت ہوئی ہے جس کی وقعت اور قیمت بین الاقوامی سفارتکاری کے میدان میں کبھی ٹکے برابر بھی نہیں رہی شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں اس تنظیم پر اکثر و بیشتر ”Oh I See“ کی پھبتی کس کر خوب بھد اڑائی جاتی ہے جبکہ او آئی سی نے بھی خود کو مردہ گھوڑا ثابت کرنے میں اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی یعنی اسلام اور اہل اسلام پر چاہے کتنے ہی مشکلات و مصائب کے سیاہ بادل چھا جائیں لیکن او آئی سی کا بنیادی وظیفہ صرف ایک مذمتی بیان جاری کرنے اور مذمتی قرار داد پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا اور بعض اوقات تو او آئی سی کی طرف سے مذمتی بیان اور قرار داد پیش کرنے کا تکلف بھی نہیں برتا جاتا اگر کبھی دنیا کی سب غیر فعال اور غیر موٴثر سفارتی تنظیمات کے متعلق اعداد و شمار اکھٹے کئے جائیں تو عین ممکن ہے کہ او آئی سی سرفہرست رہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی کامیاب سفارتکاری کے طفیل او آئی سی کے تن مردہ میں بھی نئی روح پھونک دی ہے اور عالم اسلام کا برسوں پرانا یہ کھوٹا سکہ بھی بالآخر چل ہی گیا لیکن یہ کھوٹا سکہ کس نرخ اور قیمت پر چلا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات طے ہے کہ افغانستان میں جاری بحران کے حوالے سے فقط 2 ہفتے کے قلیل ترین نوٹس پر او آئی سی کانفرنس کا اسلام آباد میں منعقد ہونا ایک ایسا انوکھا واقعہ ہے جس کے رونما ہونے کی توقع مشکل ہی سے کی جا سکتی تھی۔

(جاری ہے)


پاکستان اور سعودی عرب کی کوششیں رنگ لائیں اور یوں او آئی سی عالمی سفارتکاری میدان میں اپنی تاریخ کا سب سے موٴثر اجلاس کرنے میں کامیاب رہی۔یاد رہے کہ او آئی سی کانفرنس کا یہ اجلاس سعودی عرب کی خواہش پر بلایا گیا تھا جو او آئی سی سربراہی اجلاس کا موجودہ صدر بھی ہے نیز پاکستان کی جانب سے او آئی سی کے 17 ویں اجلاس کی میزبانی کرنا،اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی سفارتکاری کے افق پر وطن عزیز پاکستان ایک روشن،چمکتے دمکتے ہوئے ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے۔

اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ اجلاس کی سب سے اہم ترین بات یہ تھی کہ اس میں میں او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرا خارجہ کے علاوہ اقوام متحدہ،عالمی مالیاتی اداروں اور امریکہ،برطانیہ،فرانس،چین،روس،جرمنی،اٹلی،جاپان اور یورپی یونین کے نمائندوں سمیت بعض غیر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور 40 سے زائد دیگر بین الاقوامی تنظیمات کے اراکین اور ان کے نمائندہ وفود نے بھی بھرپور شرکت کی۔

اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کیلئے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل،انڈونیشیا،ترکی،ایران،بنگلہ دیش،آذربائیجان،کویت،بحرین،ترکمانستان،سمیت کم از کم دو درجن سے زائد اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ بہ نفس نفیس اسلام آباد پہنچے تھے چونکہ او آئی سی کا یہ اجلاس افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کے پس منظر میں بلایا گیا تھا اس لئے تمام شرکائے اجلاس نے افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے علاوہ افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال سے بچاؤ خاص طور پر غذائی قلت،عوام کے بے گھر ہونے اور معاشی انہدام جیسے پہلوؤں پر تفصیلی گفت و شنید کے ساتھ ساتھ قابل عمل تجاویز پر اتفاق بھی کیا حیران کن طور پر عالمی ذرائع ابلاغ نے او آئی سی اجلاس کے بھرپور کوریج کرتے ہوئے اسے پاکستان کی متحرک و فعال سفارتی کاوشوں کا ایک قابل فخر مظہر اور ثبوت قرار دیا۔


پاکستان اور افغانستان او آئی سی کے بانی ارکان ہیں اور او آئی سی وزرا خارجہ کونسل کا پہلا غیر معمولی اجلاس جنوری 1980ء میں اسلام آباد میں ہی منعقد ہوا تھا جس کا موضوع بھی اس وقت کی افغانستان کی صورتحال پر غور ہوا تھا جبکہ 2007ء میں وزرا خارجہ کونسل کے آخری اجلاس کی میزبانی بھی پاکستان نے کی تھی پورے 14 برس بعد او آئی سی کا یہ غیر معمولی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس،اسلام آباد کے قومی اسمبلی ہال میں منعقد ہوا جس کیلئے ہال کو مسلم ممالک کے پرچموں سے سجایا گیا تھا۔

اجلاس کا کلیدی خطاب وزیر اعظم عمران خان نے کیا اپنی تقریر میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ”کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں وہاں سالہا سال سے کرپٹ حکومتیں رہیں۔افغانستان کے حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اُٹھایا اگر دنیا نے افغانستان میں فلاح و بہبود کے قدامات نہ کئے تو وہاں تاریخ کا سب سے بڑا انسانی بحران اور المیے جنم لے سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کی 90 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے المیہ یہ ہے کہ 41 سال پہلے بھی پاکستان میں افغانستان کی بحالی اور استحکام کیلئے کانفرنس ہوئی تھی لیکن وہ خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی امید ہے کہ اس بار ایسا نہ ہو گا“۔

وزیر اعظم عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ”افغانستان کا 75 فیصد بجٹ غیر ملکی امداد پر مشتمل رہا ہے۔اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری مائیکل گرفٹ نے جو اعداد و شمار دئیے وہ حیران کن ہیں یہ مسئلہ افغان عوام کا ہے ہم پہلے ہی افغان عوام کی دادرسی میں تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے ہمیں مزید غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے میری طالبان کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے وہ مغربی و یورپی ممالک کی شرائط پر عملدرآمد کے لئے تیار ہیں مگر سب سے پہلے دنیا کو افغانستان کے بیرونی اثاثے اور امداد بحال کرنا ہو گی“۔


او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ ”افغانستان میں کشیدہ صورتحال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس وقت افغانستان کے عوام ہماری مدد کے منتظر ہیں ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔افغانستان کیلئے اجلاس اور بہترین انتظامات پر پاکستان کو مبارکباد دیتے ہیں جبکہ ہمیں افغانستان کے معاملے کو انسانی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا وہاں مالی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔

افغانستان کو غذائی امداد اور مالیاتی اداروں کے استحکام کی ضرورت ہے،عالمی ادارے افغان عوام کی مدد کے لئے آگے بڑھیں“نیز سعودی وزیر خارجہ نے افغانستان کے لئے ایک ارب سعودی ریال امداد فوری طور پر فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا جبکہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے ترک وزیر خارجہ میولت کاؤسگلو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”او آئی سی کو دیگر عالمی اداروں سے مل کر افغان بحران پر قابو پانا چاہئے سردست افغان عوام کو سب سے زیادہ خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔


افغانستان کے لاکھوں افراد کو بھوک اور افلاس سے بچانے کے لئے ہمیں ان کی بھرپور امداد کرنی چاہئے دوسری جانب افغان وزیر خارجہ نے بھی او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے طالبان حکومت کا بنیادی موقف بھی دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا جبکہ طالبان رہنماؤں کو یورپی اور مغربی ممالک کے طالبان حکومت کے متعلق تمام تر تحفظات اور خدشات براہ راست سننے کا بھی موقع ملا بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کابل میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب دنیا بھر سے اتنی بڑی تعداد میں وزرائے خارجہ،سفارتی وفود اور نمائندہ تنظیمات کسی ایک مقام پر طالبان رہنماؤں سے بات چیت کرنے اور افغانستان کی مجموعی صورتحال پر غور و فکر کرنے کے لئے جمع ہوئی ہیں شنید تو یہی ہے کہ او آئی سی کے اس غیر معمولی اجلاس کے مثبت نتائج جلد ہی ظاہر ہونا شروع جائیں گے سب سے انتہا خوش آئند بات تو یہ ہے کہ ساری دنیا افغان عوام کو کسی بھی بڑے انسانی بحران کا ایندھن بننے سے بچانے کے لئے پوری طرح سے متفق ہو چکی ہے۔


اسلامی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ کونسل کے 17 ویں غیر معمولی اجلاس میں منظور کی گئی متفقہ قرار داد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا باعث بنے گی،نیز انتہا پسندی،دہشت گردی اور عدم استحکام کو بھی فروغ ملے گا جس کے سنگین ترین نتائج علاقائی اور بین الاقوامی امن و استحکام پر پڑیں گے،جبکہ غربت سے نمٹنے،روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اپنے شہریوں کو ضروری خدمات خاص طور پر خوراک،صاف پانی،معیاری تعلیم،صحت کی خدمات کی فراہمی میں افغانستان کی مدد کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے افغانستان کے لئے انسانی امداد کی فوری فراہمی میں بین الاقوامی برادری،پڑوسی ممالک،ڈونر ایجنسیوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی کوششوں پر زور دیا گیا،افغانستان کے مالی وسائل تک اس کی رسائی تباہی کو روکنے اور اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں اہم ہو گی،اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے زیر اہتمام ایک ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے اور افغان تحفظ خوراک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے افغانستان کی خود مختاری،آزادی،علاقائی سالمیت اور قومی اتحاد کے بھرپور عزم کا اعادہ کیا گیا نیز قرار داد میں افغانستان میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اقتصادی تعاون کو جاری رکھنے کی تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں بڑے پیمانے پر توانائی،ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی منصوبوں بشمول تاپی پائپ لائن بجلی کی ترسیل کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے نئے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغان عوام کی زیادہ سے زیادہ فلاح و بہبود ہو سکے۔


پاکستان،چین اور سعودی عرب نے افغانستان کے مسئلے پر او آئی سی کے پلیٹ فارم کے تحت ایک فقید المثال عالمی اجتماع منعقد کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مکمل خلوص نیت کے ساتھ افغانستان کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لئے یکسو ہیں مگر یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان بھی اپنے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر بنانے کے لئے اپنے دوست ممالک جیسے پاکستان اور چین کے مشورے ہمہ تن گوش ہو کر سننے کے لئے بھی تیار ہیں یا نہیں؟کیونکہ جہاد دنیا کو طالبان کے متعلق اپنے خیالات میں کشادگی اور تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تو وہیں طالبان کو بھی افغانستان میں ایک کثیر الجہتی اور تمام تر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ آئین نو یا نصب العین اپنانے کی اشد ضرورت لاحق ہے فی الحال اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کے غیر معمولی اور کامیاب اجلاس نے افغانستان میں بھوک اور افلاس کا خوفناک بحران تو وقتی طور پر سہی،بہرحال ٹال ہی دیا ہے مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا انتظام و انصرام مستقل طور پر چلانے کے لئے بیرونی امداد سے زیادہ دیرپا داخلی استحکام درکار ہوتا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

OIC Ka Khota Sikka CHal Giya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 January 2022 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.