کیا ہم صرف دس فیصد دماغ استعمال کرتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ کے تمام حصوں کا استعمال کرتے ہیں – آپ خواہ کتاب پڑھ رہے ہوں، موسیقی سن رہے ہوں، چل پھر رہے ہوں یا پھر سو رہے ہوں آپ کے دماغ کے بیشتر حصے کام کر رہے ہوتے ہیں

قدیر قریشی پیر 11 دسمبر 2017

Do We Really Only Use 10% Of Our Brain?

ترجمہ:
یہ تصور فلموں، رسالوں، اور اخباروں کی وجہ سے عام ہے کہ انسان اپنے دماغ کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے – آپ کو اکثر یہ بتلایا جاتا ہے کہ انساں اپنے دماغ کا صرف دس فیصد حصہ استعمال کرتا ہے اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اگر آپ اپنے دماغ کا سو فیصد استعمال کرنے لگیں تو آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں – آپ لوگوں کے خیالات پڑھ سکیں گے – سٹاک مارکیٹ کے بہترین انوسٹر بن سکیں گے اور نہ جانے کیا کیا کچھ – لیکن یہ دس فیصد والا قصہ مضحکہ انگیز حد تک غلط ہے اگرچہ بہت سے لوگ اس پر یقین کر بیٹھے ہیں –
دوسرے بہت سے غلط خیالات یعنی myths کی طرح اس بارے میں بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس دس فیصد والے myth کا آغاز کب ہوا – کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی شروعات امریکہ کے مشہور ماہرِ نفسیات ولیم جیمز نے کی جبکہ کچھ لوگ اس کا الزام البرٹ آئن سٹائن کے سر پر ڈالتے ہیں جس نے غالباً یہ کہا تھا کہ ہم اپنی دماغی صلاحیت کو پوری طرح استعمال نہیں کرتے -
حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ کے تمام حصوں کا استعمال کرتے ہیں – آپ خواہ کتاب پڑھ رہے ہوں، موسیقی سن رہے ہوں، چل پھر رہے ہوں یا پھر سو رہے ہوں آپ کے دماغ کے بیشتر حصے کام کر رہے ہوتے ہیں – ہم یہ اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ دماغ کے PET scan یا MRI کے ذریعے نیورو امیجنگ سے ہم دماغ کو کام کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں – دماغ کی ان تصویروں سے ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ سیدھے سادے کاموں مثلاً چلنے پھرنے اور بات چیت کرنے میں بھی دماغ کے تمام حصے استعمال ہورہے ہوتے ہیں - ایسا نہیں ہے کہ ہم دماغ کے تمام حصے بیک وقت استعمال کر رہے ہوتے ہیں – جس طرح ہم جسم کے تمام عضلات یعنی muscles ایک ساتھ استعمال نہیں کرتے اسی طرح دماغ کے تمام حصے بیک وقت کام نہیں کرتے – تاہم ان سکینز سے صاف ظاہر ہے کہ ہم ہر روز دماغ کے تمام حصے کسی نہ کسی طور پر استعمال کرتے ہیں –
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر دماغ کا 90 فیصد حصہ واقعی استعمال نہ ہوتا تو یہ ممکن ہونا چاہیے تھا کہ اپینڈکس اور ٹانسلز کی طرح دماغ کا 90 فیصد حصہ آپریشن کرکے نکال دینے کے بعد بھی لوگ نارمل کام کرنے کے قابل ہوتے – دماغی امراض کی وجہ سے دماغ کے کچھ حصوں کے ضائع ہو جانے کا بھی کچھ اثر نہ ہوتا – لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا ایک بھی حصہ ایسا نہیں ہے جسے نقصان پہنچے اور اس کے نتیجے میں کوئی جسمانی یا ذہنی کمی واقع نہ ہو –
آپ نے غالباً فنیس گیج Phineas Gage کے بارے میں سن رکھا ہوگا جو کہ انیسویں صدی میں ریلوے کا ملازم تھا – ایک حادثے میں اس کے سر میں لوہے کا سریا ایک میزائل کی طرح اس کے جبڑے سے داخل ہوا اور کھوپڑی کو توڑتا ہوا نکل گیا – خوش قسمتی سے اس کی موت واقع نہیں ہوئی اور وہ زندہ بچ گیا – اس کی یاد داشت اور اس کی پیشہ وارانہ مہارتیں اسی طرح قائم رہیں جیسی حادثے سے پہلے تھیں – البتہ اس کی شخصیت بالکل بدل گئی - اس حادثے سے پہلے وہ ایک مہذب شخص تھا لیکن اس حادثے کے بعد وہ انتہائی گھٹیا اور اخلاق سی گری حرکتیں کرنے لگا – اس کی وجہ یہ تھی کہ سریے نے اس کے frontal cortex کے کچھ حصے کو تباہ کر دیا – frontal cortex دماغ کا وہ حصہ ہے جو انسان کو غلط کاموں سے روکتا ہے اور جذبات کو کنٹرول کرتا ہے – اس کے نہ ہونے سے گیج کو جذبات پر کنٹرول ختم ہوگیا
اسی طرح کلائیو ویئرِنگ Clive Wearing ایک پیانو بجانے والا برطانوی شخص تھا - ایک وائرل بیماری نے اس کے دماغ کے ایک حصے Hippocampus کو تباہ کردیا - Hippocampus یادیں سٹور کرنے کا کام کرتا ہے – اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اب اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو نہیں پہچان پاتا اور تیس سیکنڈ سے زیادہ دیر کے لیے کچھ بھی یاد نہیں رکھ سکتا –
دماغ کے ہر حصے کا کچھ نہ کچھ مخصوص کام ہوتا ہے اور یہ تمام حصے مل کر وہ شخصیت بناتے ہیں جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں - ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ دماغ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے کیونکہ اسے ہر وقت خوراک اور توانائی کی ضرورت رہتی ہے – ایک عام آدمی کے دماغ کا وزن اس کے جسم کے وزن کا تقریباً تین فیصد ہوتا ہے لیکن اپنا کام کرنے کے لیے اور نیورونز کی فائرنگ کے لیے اسے جسم کی کل توانائی کے 20 فیصد حصے کی ضرورت ہوتی ہے - ہمارا دماغ کئی سو کیلوریز صرف اس لیے استعمال کر دیتا ہے تاکہ وہ دل کو مسلسل دھڑکنے کا حکم دے سکے اور آپ کے جسم کو روزمرہ کے کاموں کے بارے میں ہدایات جاری کرسکے – ہمیں ہر وقت خوراک کی ضرورت رہتی ہے اور خاص طور پر ایسی خوراک کی جس میں چکنائی اور غذائیت ہو – اس ضرورت کی وجہ یہی ہے کہ دماغ ہر وقت مصروف رہتا ہے – اگر دماغ کا 90 فیصد حصہ واقعی استعمال نہیں ہوتا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارتقاء نے دماغ جیسے غیر ضروری لیکن غذائیت کے متلاشی حصے کو بلاوجہ اتنی ترقی کیوں دی –
اگرچہ یہ درست ہے کہ ہم صرف ذہنی قوت کے ذریعے چیزوں کو حرکت نہیں دے سکتے لیکن ہمارا دماغ بہت سی حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک ہے – ہم شاید ابھی دماغ کی تمام صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کرپائے ہیں – ہمیں دماغ کے کام کی تضحیک کرنے کی بجائے اس کا شکر گذار ہونا چاہیے کیونکہ دماغ ہمارے لیے بہت کچھ کرتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Do We Really Only Use 10% Of Our Brain? is a khaas article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 December 2017 and is famous in khaas category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.