
ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ
اس شدت پسندوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے پاکستان ڈیورنڈ لائن کی خار دار تاروں کی مدد سے بند کرنا چاہتا ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان غیر قانونی نقل و حل کا سلسلہ بند ہو سکے
سید بدر سعید
بدھ 16 اپریل 2014

پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحدی علاقہ ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کی ہی اپنی داخلی سکیورٹی کے معاملات پر ڈیورنڈلائن کے حوالے سے شکایات رہتی ہیں۔ افغانستان ہر بار کابل کے طالبان سے مذاکرات میں ناکامی پر اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔پاکستان کو بھی شکایت ہے کہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا جائے تو وہ اسی ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب افغانستان چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اُن پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔
(جاری ہے)
پاکستان بننے تک ڈیونڈلائن تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد تھی اور اس پر ہندوستان کے حکمران اور افغانستان کے حکمران متفقہ طور پر اعتماد کرتے تھے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے ساتھ ہی افغانستان کی جانب سے حیرت انگیز معاملہ اُٹھایا گیا۔افغان حکومت نے ڈیورنڈلائن کے دوسری جانب یعنی پاکستان علاقے میں رہنے والی پختون آبادی کو بھی اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے حق خود ارادیت کا مطالبہ کر دیا ہے۔ چونکہ ڈیورنڈلائن افغانستان کے امیر اور برطانوی نمائندے کے درمیان باقاعدہ معاہدے کے تحت بین الاقوامی سرحد تسلیم کی گئی تھی اور اس کی تو ثیق اگلے حکمران نے بھی کی تھی لہٰذا پاکستان اور برطانیہ دونوں نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ۔ برطانیہ نے اپنے زیر تسلط علاقے میں نئی حدبندیاں کرنے کا علان کیا تھا اور اُنہیں ہی پاکستان اور بھارت میں شمولیت کے علاوہ آزاد ریاست بنانے کی اجازت دی تھی۔
اس سارے معاملے میں کسی دوسرے ملک کے مطالبات یا شرائط کی گنجائش نہ تھی۔ افغانستان کا مطالبہ مسترد ہوا تو اُس نے ڈیورنڈلائن کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور سرحدی علاقوں میں دخل اندازی شروع کر دی جس کے نتیجہ میں پاک افغان تعلقات کشیدہ ہونے لگے اور اس کے نتیجے میں1950ء اور 1960ء کی دہائی میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہتھیاروں کے معاہدے کے نتیجے میں کابل نے بھی واشنگٹن سے خطے میں طاقت کا توازن برابر رکھنے میں مدد مانگی۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے۔ افغانستان نے اس حوالے سے سردمہری کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کو دشمن تصور کرتے ہوئے جدید اسلحہ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے یہی مطالبہ سوویت یونین سے کر دیا۔ ماسکو کی جانب اس کا مثبت جواب دیا گیا اورروس نے نہ صرف افغانستان کو اسلحہ کے ٹرک اتارنے شروع کر دیئے بلکہ افغان فوجی اہلکاروں کو تربیت بھی دینی شروع کر دی۔ صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ 1953ء سے 1978ء کے درمیان سوویت یونین کی جانب سے افغانستان کو اڑھائی ارب ڈالر کی عسکری امداد دی گئی۔ اس دوران میں افغانستان میں سوویت یونین نے سینکڑوں عسکری سکول کھولے۔ افغانستان میں سکولوں کے نام پر کھولے گئے اڈوں سے تربیت لینے والے متعدد افسروں نے ہی روس کو افغانستان اُترنے میں مدد فراہم کی۔ افغانستان نے ڈیونڈ لائن کو بنیاد بناکر جو مسئلہ کھڑا کیا وہ اس نہج پر پہنچ گیا کہ وہ روس افغانستان پر قابض ہونے لگا اور پھر افغانستان بارود کے ڈھیر میں دفن ہونے لگا۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ڈیورنڈ لائن کی کشیدگی سے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ہی بہت نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں کاررئیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ متعدد سمگلر اور ڈاکو بھی خود محفوظ رکھنے کے لیے اس سرحد کو غیر قانونی طور پر پار کر کے دوسرے ملک پہنچ جاتے ہیں۔ ان میں سے متعدد سکیورٹی فورسز کا نشانہ بنتے ہیں لیکن عادی لوگ چور راستوں سے بخوبی واقف ہیں۔ اسی طرح دونوں ممالک کے لوگ غیر قانونی طور پر بغیر ویزا کے سرحد عبور کر کے اپنی حکومتوں کو ٹیکس کی مد میں نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ سالانہ لاکھوں ٹن سامان بھی سمگل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سرحدی کشیدگی بھی انتہائی سطح پر جا پہنچتی ہے۔افغانستان میں پختونخواہ کا جذباتی نعرہ اور قبائلیوں کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دے کر ڈیونڈ لائن کو بین لاقوامی سرحد کی بجائے متنازعہ علاقہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نسلی پہچان سرحدوں کی محتاج نہیں اور کئی ممالک میں نسلی گروہ سرحد کے باوجود اپنی پہنچان اور شناخت رکھے ہوئے ہیں۔ کرد، بلوچ،جرمن ،تاجک سمیت کئی گرو ہ دو یا دو سے زائد ممالک میں رہتے ہیں۔ اسی طرح افغان قبائلی یا کستانی پختون بھی ایک سے زیادہ ممالک کے باشندے ہو سکتے ہیں۔اس سے نہ اُن کی نسل کو نقصان ہوتا ہے اور نہ قبیلہ ٹوٹتا ہے۔ یہ حقیقت اب تسلیم کی جانی چاہیے کہ وہ جہاں نئی خارجہ پالیسی کا اعلان کریں وہیں ڈیورنڈلائن کو بھی افغانوں کی جانب سے تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے جو باہمی رضامندی سے حل ہونا بہت ضروری ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Durand Line Ka Tanaziya is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 April 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.