فکری سطح پر تبدیلی اور عملی تغیر کی ضرورت ہے

بہ حیثیت مسلمان، ہم پرعلم کے تئیں دُہری ذمے داری ہے کہ دِینی موضوعات کے جو علوم ہیں، ان کا حصول تو ہم پر واجب ہے ہی مگر اسی کے ساتھ زمانے کی ضرورتوں اور حالات کے تقاضوں سے متعلق علم کے جو شعبے ہیں، یا وہ علوم ہمیں صرف حاصل ہی نہیں کرنا ہیں بلکہ ان میں مہارت کے ساتھ ایجادات کی صلاحیت بھی پیدا کرنی ہے

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی ہفتہ 3 اگست 2019

fikri satah par tabdeeli aur amli tagayur ki zaroorat hai
مسلمانوں میں علم کی تفریق ایک بہت ہی اختلافی موضوع بن گیاہے اس پر بحث بھی بہت ہو چکی ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک حربہ ہی ہے شیطان کا، جس کے فریب میں ہم میں سے بہت سے اب بھی مبتلا ہیں۔ ہم جیسوں کے ذہن میں ایک واقعہ ہے جوایک غزوے (جنگ) کی صورت،ہماری تاریخ میں بہت نمایاں اور سنہری حرفوں سے درج ہے۔ جسے غزوہ خندق کہا جاتا ہے۔ خندق کا کوئی تصور اس سے پہلے کسی جنگ میں مسلمانوں کے ہاں نہیں تھا اور یہ کون نہیں جانتا کہ اس جنگی تیکنک کا سہرا مشہور اور جلیل القدر صحابی حضرتِ سلمان فارسی کے سَر بندھتا ہے۔


 اسی طرح تاریخ میں یہ بھی ہے کہ کسی غزوے میں حریف کے جو سپاہی مسلمانوں کی گِرِفت میں آگئے تھے تو اُ نھیں اس شرط پر رہا کردینے کی بات کی گئی تھی کہ وہ (گِرِفتار سپاہی) جوحربی ہنر رکھتے ہیں اگر مسلمانوں کو جتنی جلد حربی ہنر کی تعلیم دیدیں تواتنی ہی جلد انہیں رہا کر دِیا جائیگا۔

(جاری ہے)

عجب نہیں کہ اس طرح کی مثالیں اور بھی ہوں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ یقیناً ہونگی کہ مسلمانوں کے اقتدار کی صدیوں پر محیط تاریخ یوں ہی نہیں ہے کہ صرف درس ِنظامی ہی کے ذریعے اُنہوں نے سینکڑوں برس حکومت کر لی ہو۔

کوئی پانچ برس ہورہے ہوں گے جب گجرات کے کوسمبا#(نزد سورت) ٹاؤن کے ایک مذاکرے میں شرکت کا ہمیں اتفاق ہوا تھا۔ جو گجرات مسلم رائٹرز اکادیمی کے زیر اہتمام (بھڑوچ والے)مولانا حبیب الرحمان متاع دارکے توسط سے منعقد ہوا تھا۔ اس مذاکرے میں پورے گجرات سے پڑھے لکھے مسلمان شریک ہوئے۔ چونکہ ہمیں اُسی دن لوٹنا تھا لہٰذا صرف اِفتتاحی اجلاس ہی میں ہم شرکت کرسکے۔

جس میں دہلی سے پدم شری اختر الواسع اور برطانیہ سے مولانا عیسیٰ منصوری بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے تھے۔ اس اِجلاس کی گفتگو کا موضوع تھا مسلمان، حالات اور میڈیا وغیرہ، اس اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے ایک مقامی بزرگ یوسف صاحب نے مسلمانوں میں تعلیم کے موضوع پر کلام کیا اور اسلام میں علم کی تفریق کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو رسول کریم اور نہ ہی اصحاب  کے دَور میں یہ تفریق کسی طور روا تھی۔

ہم بھی آج اسی ’تفریق پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جس کا ذکر بزرگ یوسف صاحب نے کیا تھا۔ علم کی اگر کوئی تفریق ہو سکتی ہے تو بس یہی کہ جو خیر اور شر کے درمیان ہے۔ یہ دُنیا خیر اور شر ہی سے عبارت ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺنے خیر اور شر کی صورت ہم پر واضح کردِی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ شیطان ابتدا سے روز ِ قیامت تک ہمیں بہر صورت بہکانے پر قادر ہے اور ”شیطان ہمارا کھلا ہوا دُشمن ہے“۔

اگر یہ بھی عرض کر دیا جائے تو غلط نہیں کہ بڑے بڑے لوگ بھی شیطان کے حربے کے شکار ہوچکے ہیں اور جنہوں نے اللہ سے پناہ مانگی وہ ابلیسِ لعین کے شر سے محفوظ بھی رہے، تاریخ کے اوراق میں یہ روداد درج ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ علما اپنی افضلیت کے باوجود۔ ’آدمیت‘ سے بچ نہیں سکے اور نہ بچ پائیں گے۔
یہ واضح رہے کہ ہم کسی طور درسِ نظامی یا معروف معنوں میں دِینی علوم کے حصول کی نفی نہیں کر تے بلکہ ایسا کرنا ہمارے نزدیک اپنے ہی اوپر ظلم نہیں بلکہ دین ِ حنیف سے بھی انحراف کی ایک شکل ہوگی۔

اپنے اسلاف اور اکابر کی کتابِ زندگی کے اوراق پلٹیں اور دیکھیں کہ کیا یہ تمام حضرات صرف درسِ نظامی ہی پڑھ کر دُنیا پر فتح حاصل کر سکے۔۔۔؟
صاف جواب ہوگا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ دُنیا بھر میں تعلیم و تدریس سے لے کر طب، حکمت (سائنس)،قانون، ادب اور فوج وغیرہ میں یعنی زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے بیشمار بزرگ اپنی گراں قدر خدمات کی مثال قائم کر کے رُخصت ہوئے ہیں۔

ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی خدمات اپنے شعبہ حیات میں تاریخی نوعیت کی حامل ہیں۔
لہٰذا بہ حیثیت مسلمان، ہم پرعلم کے تئیں دُہری ذمے داری ہے کہ دِینی موضوعات کے جو علوم ہیں، ان کا حصول تو ہم پر واجب ہے ہی مگر اسی کے ساتھ زمانے کی ضرورتوں اور حالات کے تقاضوں سے متعلق علم کے جو شعبے ہیں، یا وہ علوم ہمیں صرف حاصل ہی نہیں کرنا ہیں بلکہ ان میں مہارت کے ساتھ ایجادات کی صلاحیت بھی پیدا کرنی ہے ورنہ تو ہمیں کوئی چیز، کوئی عمل آگے نہیں لے جاسکتا۔

یاد کیجیے کہ غزوہ بدر میں رسول کریمﷺ نے دُعا بھی مانگی تھی اور بدر کی مشت بھر خاک اُٹھاکر دُشمنوں کی سمت پھینکی بھی تھی مگر اسی کے ساتھ انہوں نے جنگ کی تمام ضروریات اورحکمت بھی اپنائی، اس جنگ میں بغیر تلوار چلائے مسلمانوں کو فتح نصیب نہیں ہوئی کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ہتھیار چلانے کا بھی علم ضروری ہوتا ہے۔
آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان سرکاری محکموں میں مسلم آبادی کے تناسب سے نہیں ہیں مگر جتنے ہیں ان کے بارے میں کیا کسی نے تحقیق کی کہ کیا وہ اپنے کردار اور اطوار سے حقیقتاً مسلم ڈاکٹر، مسلم وکیل، مسلم جج، مسلم اُستاد، مسلم افسروغیرہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔

۔۔؟
اور اگر کچھ افراد اپنے کردار سے مسلم ثابت ہوتے بھی ہیں تو وہ اپنی مجموعی آبادی کے تناظر میں کیا فیصدرکھتے ہیں کیونکہ اچھے کردار کے چند افراد تواہلِ کفر میں بھی مل جاتے ہیں۔ہمارے مشاہدے میں ہے کہ مسلم افسران کے کردار اور غیرمسلم افسروں کے کردار میں اکثر کوئی فرق نہیں ملتا۔
ان دنوں انڈین ایڈمنسٹریٹیوسروسِز(IAS) کے امتحانات میں کئی مسلم امیدواروں کی کامیابی کی خبریں ہیں بظاہر یہ واقعات خوش آئند ضرور ہیں مگر اس پر ہمیں بہت خوش گمانی نہیں کرنی چاہیے،وہ یوں کہ فی زمانہ ہمارا معاشرہ دُنیا داری اور دُنیاوی آسائش ہی میں گم ہے۔

ایسے میں مسلم نام کا کوئی فرد پولیس کمشنر بن جائے، کلکٹر بن جائے یا اور کسی مقتدر عہدے پرپہنچ جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چونکہ مسلم ناموں کے افسران تو کئی مل جائیں گے ان میں اسلامی کردار کے حامل افراد شاید و باید ہی ملیں، جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم یا علم کے حصول کی نیت ہی دوسری ہے اور ظاہر ہے جو نیت ہوگی، جوطلب ہوگی وہی ملے گا۔

ملکی سطح پر حا ل میں جو سیاسی اُتھل پتھل ہوئی ہے یا ہو رہی ہے اس میں بھی دیکھا یہ جارہا ہے کہ مسلم ناموں کے سیاسی لوگ بھی اپنی سیاسی وفاداریاں ہمارے دشمنوں کے حق میں تبدیل کر رہے ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں فکر ی سطح پر تبدیلی اور عملی تغیر درکار ہے اور یہ تبدیلی ایسی نہیں کہ شام کو سوچا اور صبح عمل ہوگیا اس کیلئے، طویل ذہنی طہارت کے عمل کی ضرورت ہے سچ تو یہ ہے کہBrain Washing تو ہمارے ہاں ہوئی ضرور ہے مگر وہ آب ِزم زم سے نہیں بلکہ وہسکی وغیرہ سے (وہسکی کو یہاں علامت ہی سمجھا جائے) اس کے پیچھے ہمارے ماضی کے مالی افلاس اور غربت کو بھی دخل ہے، اب عام طور پروہ غربت تو نہیں جو ہمارے بچپن میں تھی مگر اس کے جرثومے خون میں باقی ہیں یا(ہم نے) پال رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ کمبل تو ہم چھوڑدیں مگرکمبل ہمیں نہیں چھوڑرہا۔

 
مسلمان کیلئے صرف روزی روٹی کا حصول ہی سب کچھ نہیں ہے،ہم بھول جاتے ہیں کہ روزی روٹی کا وعدہ رازق (اللہ) نے کر رکھا ہے۔ بیشک ہمارے پاس دُنیا کا بہترین نظریہ حیات ہے مگر غور کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ کیا ہمارے عام معاشرے میں، زندگی کے معاملات میں عبادات کے علاوہ اسلامی نظر یہ۔۔۔ عملاً نافذ ہے۔؟
علم و تعلیم کے پس منظر میں ہم مجموعی طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بچے جو بھی علوم حاصل کر رہے ہیں وہ آمدنی کے لحاظ سے یقیناً مفید یا سود مند ہیں، ہماری طلب یا ہمار ا کوئی نشانہ ہے بھی تو بس یہی ہے۔

یہاں عبادات کا ذکر ہم نے نہیں کیا۔ کیونکہ مسجدیں مسلمانوں سے خالی نہیں ہیں۔ ہمیں زِندگی کے مختلف شعبوں میں دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا اس میں ’مسلمان‘ ہیں۔؟
اگر کوئی ذاکر پٹھان نام کا پولیس مین ہے تو اس کا کردار دوسرے پولیس والوں ہی جیسا ہے یا واقعی وہ اسلامی کردار رکھتا ہے۔؟یہاں یہ بھی خیال رہے کہ یہ صفات صرف تعلیم سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ اس میں والدین،سرپرست اور اساتذہ وغیرہ کے کردار کے ذریعیبچوں کی تربیت بھی بنیادی کام کرتی ہے۔۔۔ اور فی زمانہ ہمارے ہاں یہی ناپید ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

fikri satah par tabdeeli aur amli tagayur ki zaroorat hai is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 August 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.