”فنگر پرنٹس سکیورٹی“کتنی محفوظ اور کتنی غیر محفوظ

لیپ ٹاپ ، سمارٹ فونز اور موبائل میں بھی سکیورٹی کی نئی سہولیات متعارف امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے پاس100 ملین سے زیادہ فنگر پرنٹس موجود ہیں

جمعہ 8 ستمبر 2017

Finger Prints Security Kitni Mehfooz Kini Ghair Mehfooz
راؤ محمد شاہد اقبال:
پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوجو”فنگر پرنٹس سکیورٹی“ کے بارے میں نہ جانتا ہو۔ سم کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے ، بنک اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے ، اے ٹی ایم مشین سے رقم نکلوانے کے لئے، ضعیف المری کی پنشن وصول کرنے کے لئے ،حتیٰ کے خبریں گرم ہیں کہ اب لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں بھی ووٹنگ کے لئے فنگر پرنٹس استعمال کئے جائے گے جبکہ لیپ ٹاپ ، سمارٹ فون اور موبائل میں بھی سکیورٹی سہولت کے ”فنگر پرنٹس ریڈر“نت نئے انداز میں تسلسل کے ساتھ پیش کئے جارہے ہیں ، ہماری زندگی میں ”فنگر پرنٹس سکیورٹی“ کے اس تیزی سے بڑھتے ہوئے عمل دخل کے پیچھے صرف ایک ہی خیال کارفرما ہے اور وہ یہ کہ فنگر پرنٹس سکیورٹی دنیا کا سب سے محفوظ ترین طریقہ شناخت ہے، اگر ہم آپ سے کہیں کہ اس خیال کا حقیقت سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تو شاید آپ کو ہماری اس بات پر ہنسی آئے لیکن ذرا دیر کیلئے ٹھہرئیے پہلے ہمارے اس مضمون کو ایک بار مکمل پڑھ لیں کیونکہ زیر نظر مضمون میں ہم فنگر پرنٹس سکیورٹی کے حوالے سے عوام الناس کے اذہان میں پائے جانے والے چار عام بڑے مغالطے دور کرنے کی کوشش کریں گے،پہلا مغالطہ : فنگر پرنٹس سکیورٹی پاس ورڈ سے زیادہ محفوظ ہے۔

(جاری ہے)

اکثر لوگ اپنے اس خیال پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں مگر حقیقت قطعاََ اس کے برعکس ہے کیونکہ فنگر پرنٹس چوری بھی ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ہوم لینڈ سکیورٹی کی یہ سرکاری پالیسی ہے کہ امریکہ میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر ملکی جس کی عمر 14 سال سے لے کر 79 سال تک ہے اس کے فنگر پرنٹس باقاعدہ اس شخص کے علم میں لائے بغیر تواتر کے ساتھ جمع کئے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 100 ملین سے زیادہ فنگر پرنٹس ایک فائل کی صورت میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی FBI کے پاس موجود ہیں، اس فائل میں 30 ملین کے قریب ایسے افراد کے فنگر پرنٹس بھی ہیں جن کا کسی بھی قسم کی مجرمانہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ان دو مثالوں سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ اپنے جن فنگر پرنٹس کو محفوظ ترین تصورکرتے ہیں یہ بڑی آسانی سے چرائے بھی جا سکتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کے کریڈٹ کارڈ یا پن نمبر چوری ہوجاتے ہیں، دوسرا مغالطہ: فنگر پرنٹس کو کاپی نہیں کیا جاسکتا۔

2013ء میں ایپل کمیٹی نے دنیا میں پہلی بار بائیو میٹرک فنگرپرنٹ اسکینر اپنے مشہور زمانہ فون”iPhone 5s “ میں متعارف کرایا تھا جس کے بارے میں ایپل نے دعویٰ کا تھا کہ اس فنگر پرنٹس ٹچ سسٹم سے آپ کا فون آپ کے علاوہ ہرشخص کے لئے ناقابل رسائی ہوگیا ہے۔ لیکن ایپل کے اس دعویٰ کو ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جرمنی کی معروف سکیورٹی کمپنی کے محقق ”اسٹار برگ“ نے ایک Verifinger نامی سافٹ وئیر مارکیٹ میں عام استعمال کے لئے پیش کردیا جوکسی بھی فنگر پرنٹ کی ہائی ریزولیشن تصویر کی مدد سے سینکڑوں نقل یا کاپیاں باآسانی تیار کرلیتا تھا جسے آپ کے ہاتھوں نے کبھی بھی چھوا ہو یہ کمپنی اپنے ایجاد کردہ ایک جدید ترین سینسر کی مدد سے اُس سے آپ کے فنگر پرنٹس کا کاپی بنا کر دے سکتی ہے جسے کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی بائیو میٹرک سکینر پر جتنی باد دل چاہے استعمال کرسکتا ہے۔

امریکی خفیہ ایجنسی FBI کی طرف سے روسی میکرز کی جانب سے ایسی ہی کسی ٹیکنالوجی کی مدد سے امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج میں ردو بدل کرنے خدشہ بھی ظاہر کیاگیاہے،اس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ فنگر پرنٹس کی کاپیاں یا نقل بنانا ایک معمول کی بات خیال کی جاتی ہے ،تیسرا مغالطہ : فنگر پرنٹس آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دیں گے۔

فنگر پرنٹس کس طرح آپ کو دھوکہ دیتے ہیں یہ جاننے کے لئے آپ اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت نکال کر اپنے قریب میں واقع کسی ایزی پیسہ سینٹر چلے جائیں جہاں بیشترز بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے اپنے فنگر پرنٹس کی ہر 6 ماہ بعد تصدیق کروارہے ہوتے ہیں۔ آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ یہاں انہیں اپنے فنگر پرنٹس کی تصدیق میں کس قدر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر بائیومیٹرک سیکنران کے فنگر پرنٹس کو شناخت کرنے سے ہی انکار کر دیتا ہے،جہ ہاں یہ حقیقت ہے کہ زیادہ کام کرنے اور عمر رسیدہ ہوجانے کے کی صورت مین بھی فنگر پرنٹس آپ کی انگلیوں کی پوروں سے مٹ جاتے ہیں، خراب ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار ایسا ہوجائے کہ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے جائیں اور اے ٹی ایم پر لگا ہوا ”فنگر اسکینر“ آپ کے انگوٹھے کے نشان کو شناخت کرنے سے انکار کردے تو سمجھ جائیے گا کہ آپ کے فنگر پرنٹس آپ کو دھوکہ دے چکے ہیں تو بجائے متعلقہ بنک اہلکاروں کے ساتھ بحث ومباحثہ کرنے کے سیدھے نادرا آفس روانہ ہوجائیے گا کیونکہ اب آپ کو اپنے متروک فنگر زپرنٹس کی جگہ نئے فنگر پرنٹس اندراج کرانے کی ضرورت ہوگی، چوتھا مغالطہ: فنگر پرنٹس مستقبل میں پاسورڈ کی جگہ لے لے گا،جب یہ بات ثابت شدہ ہے کہ فنگر پرنٹس نہ صرف چوری ہوسکتے بلکہ کاپی بھی ہوجاتے ہیں، اس کے بعد ماہرین سکیورٹی کے نزدیک یہ بات خارج ازامکان ہے کہ مستقبل میں کبھی بھی فنگر پرنٹس پاسورڈ کی جگہ لے سکیں گے ہاں ایک بات ضرور ہے کہ آخر پاسورڈ کب تک بطور سکیورٹی بخوبی استعمال ہوتے رہیں گے آخر کار ایک وقت تو ایسا ضرور آئے گا جب پاسورڈ بھی شاید محفوظ نہ رہ سکیں، اس ضمن میں اکثر سکیورٹی ماہرین یہ آراء پیش کرتے ہیں، بہرحال انسان کو کسی بھی ایک سکیورٹی کی سہولت کو اختیار کرنے کے بجائے مستقبل میں ایک سے زیادہ سیکورٹی کے طریقے متعارف کرانے ہوں گے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ فنگر پرنٹس اور پاسورڈ کے ملاپ سے ایک مشترکہ سیکورٹی کانظام متعارف کرانے کے بعد ہی انسان شاید یہ دعویٰ کرنے کے قابل ہو سکے گا کہ اس کی سکیورٹی کا نظام واقعی ناقابل تسخیرہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Finger Prints Security Kitni Mehfooz Kini Ghair Mehfooz is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 September 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.