حقدار ترسے، انگار برسے

چھوٹا سا قد، گوری سپید رنگت اور جھکی ھوئی کمر، اس ادھیڑ عمر عورت میں نہ جانے ایسی کیا بات تھی کہ جب وہ گھر میں داخل ھوتی تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ۔ گھر کے مردوں کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آ جاتی اور وہ سلام دعا کر کے کسی نہ کسی بہانے ادھر ادھر نکل جاتے ۔ گھر کی خواتین کافی گرمجوشی سے اس کا استقبال کرتیں،

Afshan Khawar افشاں خاور جمعہ 31 اگست 2018

Haqdar Barse
چھوٹا سا قد، گوری سپید رنگت اور جھکی ھوئی کمر، اس ادھیڑ عمر عورت میں نہ جانے ایسی کیا بات تھی کہ جب وہ گھر میں داخل ھوتی تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ۔ گھر کے مردوں کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آ جاتی اور وہ سلام دعا کر کے کسی نہ کسی بہانے ادھر ادھر نکل جاتے ۔ گھر کی خواتین کافی گرمجوشی سے اس کا استقبال کرتیں، اسے چائے، کھانا پیش کیا جاتا اور بہت ھمدردی سے اس کا حال دریافت کیا جاتا ۔


پتہ نہیں اس عورت میں ایسی کیا بات تھی کہ اس کے آتے ہی گھر بھر میں احساس جرم کی ایک لہر دوڑ جاتی۔ وہ بھی شاید اس کو سمجھتی تھی۔ اس لئے عام طور پر جلد ہی گھر سے رخصت ہو جاتی۔ اس کے جانے کے بعد کوئی نہ کوئی اس کی ہمت، صبر ، بے داغ جوانی، باوقار بڑھاپے اور کٹھن محنت سے بھر پور زندگی کی تعریف ضرور کرتا۔

(جاری ہے)


بچے بڑے سب اس کو بی بی سکینہ کہتے تھے اور شاید پورے خاندان نے بی بی سکینہ کا کچھ ادھار دینا تھا۔

غالبا" یہ قرض بہت زیادہ تھا۔ اور لوٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ شاید اسی لیے پورا خاندان اس کی موجودگی میں بے حد شرمساری اور ذلت محسوس کرتا تھا۔
عموما" خاندان کے وہ مسائل جو کہ بزرگوں کی غلطیوں یا گناہوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، بچوں کے سامنے ان پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ بی بی سکینہ بھی شاید اسی طرح کے کسی ظلم کی پیداوار تھی۔
بی بی سکینہ کے چہرے پر 2 چیزیں بڑی نمایاں تھیں۔

۔۔
ایک مسکراہٹ،،،،،جس میں کچھ بے بسی تھی اور بہت ساری بے پرواہی ۔۔۔
دوسری چیز اس کی آنکھیں تھیں، بڑی بڑی روشن بالکل گھر کے بزرگ دادا کی طرح ۔۔۔۔۔
بس ایک فرق تھا۔ بی بی سکینہ کی آنکھوں میں ہر وقت پانی بھرا رہتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ اگر وہ ذرا سی بھی پلک جھپکائے گی تو پانی بہنے لگے گا۔ لیکن کبھی کسی نے بھی بی بی سکینہ کو روتے نہیں دیکھا تھا۔

شاید وہ ان آنسوؤں کی اہمیت سمجھتی تھی اور ظالم اور نا قدرے لوگوں کو وہ اپنے آنسوؤں کے قابل نہیں سمجھتی تھی۔
اسے سب بی بی کہتے تھے اس کا مطلب تھا کہ وہ کوئی معزز عورت تھی کیونکہ گاؤں کے کمی لوگوں کی مزدور پیشہ عورتوں کو ماسی، چاچی کہ کر بلانے کا رواج تو تھا لیکن بی بی کا لفظ صرف خاندانی عورتوں کے لیے ہی استعمال ھوتا تھا۔
لیکن اگر بی بی سکینہ خاندانی عورت تھی تو وہ برقعہ کیوں نہیں پہنتی تھی۔

وہ جلانے والی لکڑیاں چن کر سر پر لاد کر کیوں آتی تھی۔ وہ فصل کیوں کاٹتی تھی۔ روز بکریاں چرانے اور گھاس کاٹنے کیوں جاتی تھی۔ سوال تو بہت تھے لیکن جواب دینے کو کوئی تیار نہ تھا۔
ان سب سوالوں کا جواب بہت سال پہلے کہیں ماضی میں دفن تھا ۔۔۔
یہ کہانی تھی ایک زمیندار خاندان کی، 4 بیٹے، بڑا سارا گھر اور 20 مربع زمین۔۔ نہ جانے کیا ایسی بات تھی کہ ایک ماں کی کوکھ سے نکلے یہ بھائی محبت اور خلوص سے کبھی ساتھ نہیں بیٹھ سکے۔

20 مربع زمین تھی مگر سال بھر کے بعد کھانے کے دانوں سے زیادہ کبھی کچھ وصول نہ ہو سکا۔
گزشتہ 60 سال اس خاندان پر کسی عذاب مسلسل کی طرح گزرے۔ پہلے 20 سال شریکوں اور اگلے 40 سال ان بھائیوں نے آپس میں مقدمہ بازی میں گنوا دیے۔ آخر میں یہ حالات ھو گئے کہ کسی بھائی کے گھر کوئی فوتگی ھو جاتی تو جانا ھوتا ورنہ بول چال، لین دین سب بند تھا۔
عجیب بات یہ تھی کہ بی بی سکینہ ان چاروں گھروں میں یکساں طور پر جاتی اور اسے ان چاروں گھروں میں یکساں طور احترام حاصل تھا۔


یہ چاروں بھائیوں کے گھر ھمیشہ سے اس طرح نہیں تھے۔ ان چاروں بھائیوں میں بھی کبھی بہت محبت تھی۔ ان کی فصلیں بھی کبھی لہلہاتی تھیں۔ اور یہ گاؤں کا سب سے اونچا اور عزت دار گھرانہ تھا۔ چار بھائیوں کے اس گھرانے میں بھی کبھی برکت تھی۔
اچھا، اللہ کے قانون بھی بڑے عجیب ہوتےہیں۔ عموما" وہ اس گھر سے اپنی برکت اٹھا لیتا ہے جہاں اس کی رحمت کی ناقدری ہوئی۔

۔۔ یہاں تو ناقدری نہیں بلکہ ظلم ہوا تھا۔
ماضی کے اس خوشحال چار بھائیوں والے گھر میں اللہ نے اپنی رحمت ایک چھوٹی بہن کی شکل میں بھیجی تھی۔ یہ سب بھائیوں سے چھوٹی تھی اور اور والدین کے بڑھاپے کی اولاد۔۔۔ یہ بچی اپنے والدین اور بھائیوں کے لئے آزمائش بن کر آئی تھی ۔۔۔
جہاں بھائی معاملہ فہم، زیرک، خوبصورت، دراز قد اور بے مثال تھے۔

وہاں بہن سادہ نقوش اور اس سے بھی سادہ عقل لے کر آئی تھی۔ ھم اسے فاترالعقل تو نہیں کہ سکتے لیکن اس طرح کے لوگوں کو عام طور پر گاوں میں موٹے دماغ والا کہا جاتا ہے۔
بڑھاپے کی اولاد کے مسائل بھی عجیب ہوتےہیں ابھی وہ لڑکپن کے مراحل ہی طے کر رہے ہوتے ہیں کہ والدین کے رخصت ھونے کا وقت آجاتا ہے، اس بچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ والدین کی وفات کے بعد یہ اپنے گھر کی جنت میں بھائیوں کے زیر سایہ پلنے لگی، تھوڑی اللہ لوک سی تھی تو نہ تو کبھی بھابھیوں کو کھٹکی نہ ہی اس نے کبھی گھر میں کوئی مسئلہ پیدا کیا۔


کہتے ہیں کہ جنت میں شیطان سانپ کے منہ میں چھپ کر داخل ہوا تھا۔ واللہ عالم، کچھ کہ نہیں سکتے اس بچی کی جنت میں یہ شیطان کس طرح داخل ہوا، کسی رشتہ دار کے ذریعے یا شاید کسی بھابھی کے دل میں بیٹھ کر
سنا ہے کہ ہر انسان کے اندر ہر وقت 2 بھیڑیے لڑ رہے ہوتے ہیں، ایک سفید اور ایک سیاہ۔۔۔۔
سفید بھیڑیا اچھے اعمال کو ظاہر کرتا ہے اور سیاہ بھیڑیا برے اعمال کو۔

کبھی سفید بھیڑیا جیت جاتا ہے اور کبھی سیاہ بھیڑیا ۔۔۔
بہرحال قصہ مختصر، کیا ہوا کیا نہیں، ایک دن ان بھائیوں کے اندر کا سیاہ بھیڑیا کسی لمحے جیت گیا۔ بالکل سادہ سی بات تھی اور سادہ سا حساب۔ 20 مربعے زمین تھی اور چار بھائی تھے، فی بھائی 5 مربعے آسکتے تھے۔ اب اگر بہن کو حصہ دیتے تو بھائیوں کے حصہ کی زمین کم ہو جاتی، پھر اس کم رو اور کم عقل کی شادی بھی ایک مسئلہ تھی۔

خاندان میں رشتہ ھوتا تو نہ صرف حصہ پورا پورا دینا پڑتا بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی دینا پڑتا، عموما" شکل اور عقل کی کمی کو دولت سے پورا کیا جا سکتا ہے اور اس بچی کے معاملے میں بھی یہی ہونا تھا۔
بچی کی سادہ لوحی کو بہانہ بنا کر بھائیوں نے گاؤں کے کسی غریب معمولی انسان سے اس کا نکاح پڑھا دیا۔ گاؤں میں نکاح زبانی ہی پڑھائے جاتے ہیں اور اس بچی کا نکاح بھی اسی طرح پڑھایا گیا۔

ہاں رخصتی سے پہلے پکے کاغذوں پر بھائیوں نے جائداد سے دستبرداری کے لئے انگوٹھے ضرور لگوا لئے۔ بہن کا شریک حیات چنتے ہوئے بھائیوں نے کوئی جلد بازی نہیں کی تھی اور اچھی طرح سے دیکھ بھال اور اطمینان کر لیا تھا کہ وہ آدمی اتنی ھمت والا نہیں تھا کبھی اپنی بیوی کا حق مانگ سکتا۔
آدمی غریب تھا اپنی بیوی کو اچھا کھانا اور لباس تو نہ دے سکا لیکن عزت ضرور دی۔


امیر بھائیوں کی غریب بہن پہلی بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی اللہ کے پاس چلی گئی، شاید وہ اللہ تعالی کو خود جا کر سب کچھ بتانا چاھتی تھی ۔ ۔۔
۔۔۔۔کہتے ہیں کہ قیامت یوم حساب ہو گا۔ شاید یوم سوال بھی ہو جس دن یہ بہن اپنے بھائیوں اور معاشرے سے سوال پوچھے گی اور شاید یوم جواب بھی ہو گا جب ان بھائیوں کو جواب بھی دینا پڑے گا ۔۔۔۔۔
خیر یہ سب وہ باتیں ہیں جن کا علم اللہ کے پاس ہے کیونکہ اس دنیا سے تو کوئی آج تک کبھی لوٹ کر آیا ہی نہیں ۔

اس لئے ھم تو اس بارے میں کچھ نہیں کہ سکتے ۔
چلیں اب دوبارہ اپنی کہانی کی طرف آتے ہیں۔ بی بی سکینہ ہی وہ بچی تھی جس کی پیدائش پر اس کی ماں فوت ہو گئی تھی۔
وہ امیر مامووں کی غریب بھانجی تھی۔۔۔
جسے باپ نے غربت میں پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ کسی ماموں کو یہ خیال نہ آیا کہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا اور بہو بنا کر گھر لے آتا۔ بس بستر مرگ پر پڑے ہوئے باپ نے اپنے سے بھی غریب رشتہ دار سے اس کی شادی کر دی۔

وہ اپنے ننھیال کے لالچ اور ماں کی سادہ لوحی کی سزا کے طور پر ملی ہوئی زندگی صبر سے گزارنے لگی۔ شادی کے 2 سال کے اندر 2 بیٹیاں اور تیسرے سال طلاق مل گئی۔ باپ پہلے ہی مر چکا تھا۔ کوئی بھائی بھی نہ تھا۔ ددھیال سارا غریب اور محنت کش افراد پر مشتمل تھا۔
گھر میں بھوک سے بلکتے بچے دیکھے نہ گئے اور بی بی سکینہ نے پردہ چھوڑ کر مزدوری کا فیصلہ کر لیا۔

اجرت پر لوگوں کے گھروں میں پانی کے گھڑے بھر کر لاتی۔ بکریاں چراتی اور گھاس کاٹتی۔ ۔۔
کہیں اپنے عزت دار ماموں یا ماموں زاد بھائی دیکھتی تو فورا" دوپٹے سے اپنا منہ چھپا لیتی۔ حالانکہ منہ تو ان لوگوں کو چھپانا چاہیے تھا۔
پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا، چاروں مامووں کے گھروںمیں پھوٹ پڑنے لگی اور رفتہ رفتہ چارپائی بھر زمین بھی ایسی نہ رہی جس پر مقدمہ نہ ھوتا۔

ھر بھائی کو لگتا کہ اس کا حق زیادہ بنتا ہے اور اسے زیادہ ملنا چاہیے۔
حقدار کا حق کھانے والوں کو اللہ کا عذاب لالچ کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔
کچھ سالوں کے اندر ہی چار حویلیوں میں سے 3 میں جوان جنازے اٹھے۔ سب بہت روئے، اللہ سے معافیاں مانگی گئیں۔ نہ معافی مانگی گئی تو اس سے، جس کی حق تلفی کی گئی تھی۔
چوتھی حویلی سے جوان جنازہ تو نہ نکلا لیکن اس گھر کے بیٹے نے پورے خاندان کی عزت کا جنازہ ضرور نکال دیا۔


سب کو اللہ بڑا یاد آیا پر اپنا ظلم پھر بھی یاد نہ آیا۔
سنا کرتے تھے
" حقدار ترسے، انگار برسے "
دیکھ بھی لیا ۔۔۔۔
اس خاندان کی اپنی بیٹیاں بھی اجڑ کر واپس آئیں۔ بیٹیوں کے حادثات نے والدین کو بہت دکھ دئے لیکن پھر بھی انہیں اپنی مظلوم بہن اور بھانجی کے دکھ کا احساس نہ ھوا۔
آہستہ آہستہ بزرگ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اگلی نسل نے معاملات سنبھالے۔

ان میں بھی اتنا حوصلہ نہ تھا کہ والدین کے گناہوں کی تلافی کر سکتے اور حقدار کا حق لوٹاتے۔ لیکن خیر، بی بی سکینہ کی تھوڑی بہت مدد کرنے لگے۔
۔۔حق تلفی کا ازالہ حق واپس دینے سے ھوتا ہے، خیرات رینے سے نہیں ۔۔
سنا ہے دوسروں کا حق کھانے والوں کو آخرت میں تھوہر اور کیکر کے کانٹے کھانے کو ملیں گے۔ اس عالم کا تو پتہ نہیں ہے۔ اس دنیا میں جن مربعوں پر کبھی فصلیں ھوتی تھیں وہاں اب صرف کلر، تھوھر اور کیکر ہی اگنے لگا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Haqdar Barse is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 August 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.