حقوق نسواں کی اسلامی تاریخ

اسلام کی آمد عورت کیلئے غلامی‘ذلت اور ظلم و استحصال سے آزادی کا پیغام بنی

بدھ 11 نومبر 2020

Haqooq e Niswan Ki Islami Tareekh
بشریٰ شیخ
اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔روز اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی،سماجی،معاشرتی،قانونی،آئینی، سیاسی،اور انتظامی کردار کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی،تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار سے یکسر صرف نظر کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں،اسلام کی آمد عورت کے لئے غلامی،ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کاپیغام تھی،اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں،اور عورت کو وہ حقوق عطا کئے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

(جاری ہے)


اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی عزت،تکریم،وقار اور بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد معاشرے کا ایک فعال حصہ ہوتا ہے،اسلامی معاشرے میں خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات کے سبب سماجی،معاشرتی،سیاسی اور انتظامی میدانوں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو ارتقاء کی اعلیٰ منازل کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

مغربی ڈاکو صرف حقوق نسواں مناتے ہیں مگر دیتے نہیں،بلکہ حقوق نسواں کے نام پہ عورت تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں آپ اندازہ لگائیں ان کے چند عجیب فلسفہ سے کہ اگر عورت اپنے گھر میں اپنے لئے اور اپنے شوہر کیلئے اور اپنے بچوں کیلئے کھانا تیار کرتی ہے تو یہ رجعت پسندی اور دقیانوسیت ہے۔
اور اگر وہی عورت ہوائی جہاز میں ایئر ہوسٹس بن کر سینکڑوں انسانوں کی ہوسناک نگاہوں کا نشانہ بن کر ان کی خدمت کرتی ہے تو اس کا نام آزادی اور جدت پسندی ہے۔

اگر عورت گھر میں رہ کر اپنے والدین،بہن بھائیوں کیلئے خانہ داری کا انتظام کرے تو یہ قید اور ذلت ہے، لیکن دکانوں پر سیلز گرل بن کر اپنی مسکراہٹوں سے خریداروں کو متوجہ کرے یا دفاتر میں اپنے افسروں کی نازبرداری کرے تو یہ آزادی اور اعزاز ہے۔اگر موازنہ کیا جائے کہ جتنی پیداوار انہوں نے عورت کو باہر نکال کر حاصل کی ہے اس کے مقابلہ میں جو کچھ کھویا یعنی خاندانی نظام یہ اس کے مقابلہ میں بہت بڑا نقصان ہے۔

آج کل کی عورت اس دھوکہ میں ہے کہ باہر نکل کر میرا اعزاز بڑھ گیا ہے،میری عزت بڑھ گئی ہے،میری شہرت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو لازماً اسلام کے معاشرتی نظام پر اشکال کیا جاتا ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے۔اس کو حقوق سے محروم رکھا ہے اور اسے قیدی بنا کر رکھ دیا ہے:حالانکہ دوسری طرف آزادی نسواں کے علمبرداروں کا حال یہ ہے کہ وہ عورتوں سے دفتروں میں،کارخانوں میں کام بھی کروا رہے ہیں اور دوسری طرف انھیں سے بچے بھی پیدا کروا رہے ہیں،بچوں کی پرورش بھی عورتوں کے ذریعے ہی کروا رہے ہیں،آج کے دور میں جو بہت زیادہ ترقی یافتہ اور روشن خیال اور آزادی نسواں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں وہ اپنی عورتوں کو اگر بہت زیادہ با اختیار بنا دیتے ہیں تو یہ کرتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کے لئے کوئی دوسری عورت رکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ طرح طرح کی زیادتی کی جاتی ہے،اب کوئی بتائے کہ وہ دوسری عورت کیا عورت نہیں ہے؟جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس سلسلے بس اس حقیقت کو جان لینا ہی کافی ہے کہ عورتوں کے حقوق و اختیارات کی بات کرنے والے لوگ،ممالک اور ادارے تو ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے سامنے آئے ہیں۔


جب کہ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو ہر قسم کے مظالم سے اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی،سب سے پہلے اسلام نے یہ تصور عام کیا کہ بحیثیت انسان کے مرد اور عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں،ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لئے تیار نہیں تھے،چہ جائے کہ انھیں حقوق دیتے۔

جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دیئے ہیں اور جس فیاضی سے دیئے ہیں،وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہ دے سکا ۔اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور باقاعدہ اس کا تعین کیا ہے۔اگر بیوی ہے تو گھر کی ملکہ ہے،بیٹی ہے تو والدین کے لئے رحمت و نعمت ہے،بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لئے جنت کی بشارت ہے اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے،عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصور ہے،کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟ اس کے علاوہ اسلام نے عورتوں کے تعلیمی، معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔


ماں کی گود کو بچے کی پہلی تعلیم گاہ قرار دیا گیا ،جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا اور مہذب ہونا کتنا ضروری ہے۔انھیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا پورا اختیار ہے،کسی کو اجازت نہیں کہ اس کے مال میں تصرف کرے۔شادی بیاہ کے معاملے میں اگر چہ ولی کو لڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے:لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جا سکتی، اس کی رضا مندی ضروری ہے۔

اسلام نے اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورت کی فطری حالت اور ساخت کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اسی وجہ سے کچھ معاملوں میں مردوں کے احکام الگ ہیں:جب کہ عورتوں کے الگ ہیں اور اس میں کسی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ ہم سب دیکھتے اور جانتے ہیں کہ چاہے انسان کا معاملہ ہو یا حیوان کا یا کسی بھی چیز کا چینی اس کی صلاحیت اور وسعت ہوتی ہے اسی کے مطابق اس پر ذمے داری عائد کی جاتی ہے یا اسی کے مطابق اس کو اختیارات دیئے جاتے ہیں۔


اسلام اپنے ماننے والوں کی زندگی بھر کے تمام تر مرحلوں میں مکمل رہنمائی کرتا ہے اور عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے،اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انھیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوشحال اور مامون بن سکتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں خود مسلمانوں کا بھی ایک بڑا طبقہ دین اسلام کی تعلیمات و ہدایات سے دور ہو چکا ہے،جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بے شمار خرابیاں جنم لے چکی ہیں اور بہت سے بد باطن لوگ مسلمانوں کی عملی خامیوں کو اسلام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے میں مرد وزن کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں، اس کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Haqooq e Niswan Ki Islami Tareekh is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 November 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.