حجاب اور مسلم خواتین کی کردار کشی کی شرمناک کوشش

ھالی وڈ کے بعد بھارتی فلموں میں، ”لپ سٹک انڈر مائی برقعہ“اور ذوالفقار“ نامی فلموں میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سازش

جمعرات 1 جون 2017

Hijab Aur Muslim Khawateen Ki Krdarkashi Ki Sharamnak Koshish
رابعہ عظمت :
بھارت میں دن بدن ہندو فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں،وہ کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔مسلم پرسنل لاء،طلاق ثلاثہ،جہاد اور گاؤرکھشا کے نام پر مسلم اقلیتی طبقے پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔دراصل جب سے مرکز اور ریاست میں بی جے پی کی بھگوا حکومت برسراقتدار آئی ہے۔

مسلمانوں نے مذہبی معاملات کو سیاسی رنگ دینے ،ہوا کھڑا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔گزشتہ دنوں بھارتی ریاست مہارشڑا میں گنوونش کے نام پر نیا قانون نافذ کرکے گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کردی گئی،گاؤ رکھشا کی آڑ میں بے گناہ مسلمانوں کے گلے کاٹنے کا ہولناک سلسلہ جاری ہے۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ مودی کابینہ کا انتہا پسند وزراء و رہنماؤں کی جانب سے بھی شرانگیزی )پھیلائی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

مسلمانوں کودھمکیاں دی جاتی ہیں کے وہ پاکستان چلے جائیں۔اترپردیش میں فرقہ پرست وزیراعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ کا حکومت سنبھالنا بھی ہندوستان کو ہندو راشٹر سبھا بنانے کے مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے یوپی میں یوگی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔یوگی کی ہندو دہشتگرد تنظیم ہندو یووا واہنی نے آتنک مچا رکھا ہے،مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے۔

جہاں نمازوپڑھی جاتی ہے اس جگہ کو پوتر پاک کرنے کیلئے گنگا جل سے دھویا جاتا ہے۔لوجہاد کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔یووا واہنی کی غنڈہ گردی کی انتہا تو یہ ہے کہ اعلان کی جارہا ہے کہ اگر مسلمان عورتیں اسلام ترک کر کے ہندہ مذہب قبول کرلیں تو مذکورہ دہشتگرد گروپ کے کارکن ان عورتوں سے شادی کرنے اور انہیں انصاف دلانے کیلئے تیار ہیں۔
دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سچر کمیٹی کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس راجندر سچر نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2019ء میں ہندوستان کو ہندو راشٹر کا اعلان کروانے کی آر ایس ایس کوشش کریگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔اور یہ صرف عدم برداشت کا معاملہ نہیں ہے ۔یہ عدم برداشت سے بڑی چیز ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی جیت کے بعد خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
جسٹس (ر)سچر نے کہا کہ سب سے زیادہ خطرناک یوگی آدیتہ ناتھ کو یوپی کا وزیراعلیٰ بنانا ہے۔یہ آر ایس ایس کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے۔

جسٹس سچر کا مزید کہنا تھا کہ آر ایس ایس اتر پردیش میں کامیابی کے بعد پہلے سے زیادہ طوقتور ہو گئی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں فرقہ پرستی عروج پر ہے۔تعلیمی اداروں پر بھی ہندو انتہا پسندوں کی یلغار جاری ہے۔مسلم تاجروں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔دہشتگردی کے نام پر سینکڑوں بے گناہ مظلوم مسلم نوجوانوں کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں دھکیل دیا گیا ہے اور کئی آج بھی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔

اور اس میں بھارتی متعصب میڈیا بھی پیش پیش ہے۔مسلم مخالف چھوٹی سے چھوٹی خبر کو بھی ہاٹ نیوز بنا کر پیش کرتا ہے اور مسلمانوں کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔حتٰی کہ بھارتی فلموں میں مسلم منافرت اور تعصب کی بنیاد پر فلمیں بنانے کا رحجان بڑ گیا ہے اور آئے روز کسی نہ کسی فلم کے ذریعے اسلام کے خلاف نیا فتنہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔

ایسے ہی مسلم مخالف ماحول میں ایک اور فلم”لپ سٹک انڈر مائی برقع“ موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔بھارتی معروف فلم ڈائریکٹر پرکاش جھا کی فلم”لپ اسٹک انڈر مائی برقع“ میں مسلم خواتین کے کردار مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔یوٹیوب اور انٹرنیٹ پر فلم کی تعلق سے جو باتیں سامنے آئی ہیں اس سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس فلم میں مسلم خواتین کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔

برقع خواتین کی آزادی کے لئے ایک داغ ہے اور یہ برقعہ پہننے والی خواتین بھی آزادانہ ماحول میں زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ناشائستہ الفاظ کے استعمال کے ساتھ ساتھ ان برقعہ پہننے والی خواتین کو غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف دکھایا گیا ہے۔مسلم تنظیموں نے اس فلم کی سینما گھروں میں نمائش کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔


متنازعہ فلم میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے دارلحکومت بھوپال میں رہنے والی چار مختلف عمر کی خواتین کی کہانی دکھائی گئی ہے بالی وڈ اداکارائیں کونکنا سین شرما،پلبیتا،اہانا،رتنا پاٹھک نے یہ کردار نبھائے ہیں۔کونکنا ایسے کردارمیں ہے جو تین بچوں کی ماں ہے اور خوش نہیں ہے۔پلبیتا کالج کی طالبہ بنی ہوئی ہے جو پسماندہ ماحول میں پلی بڑھی ہے لیکن اس کا خواب پاپ سنگر بننے کا ہے۔

اہانا بیوٹیشن کے کردار میں ہے جو اپنے عاشق کے ساتھ فرار ہونے کے منصوبے بناتی رہتی ہے اور رتنا پاٹھک ایسی بیوہ عورت کے کردار میں ہے جس کی عمر ڈھل چکی ہے لیکن وہ اپنی زندگی اپنے حساب سے کھل کر جینا چاہتی ہے۔چاروں خواتین کا کردار ایک دوسرے سے جدا ہے لیکن چاروں ہی دوسری زندگیاں جی رہی ہیں ایک زندگی جو دنیاسے پوشیدہ ہے یعنی برقع کے اندر ہے اور دوسری وہ جودنیا کے سامنے ہے۔


سنسر بورڈ کے مطابق فلم میں غیر اخلاقی مناظر کی بھر مار ہے جس سے ایک طبقے کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔فلم کے نام میں برقعہ کے لفظ کے استعمال پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے اس کے علاوہ فلم کے کئی مکالموں میں اشتعال انگیز الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔فلم کے اسکرپٹ رائٹر اور شاعر نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ فلم سرٹیفیکیشن بورڈ میں جائے گی اور منظوری حاصل کرے گی۔

بھارت سرکار جی ایف سی میں تبدیلی کا وعدہ کرے گی۔کچھ لوگ خوش ہو جائیں گے اور پھر کچھ بھی نہیں ہوگا اور یہ آئندہ بھی چلتا رہے گا۔
سنسر بورڈ کے رکن اشوک پنڈت کا کہنا ہے کہ اس فلم کو سینسر کرنا بیکار ہے حیران ہوں کہ فلم کو منظوری کیوں نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ اس فلم کو ممبئی فلم فیسٹول میں سب سے بہترین فلم کا ایوارڈ مل چکا ہے جبکہ ٹوکیو انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں بھی اسے”دی سپرٹ آف اشیا“ ایوارڈ دیا گی ہے۔

اسے گلاسکو فلم فیسٹول میں بھی دکھایا گیا ۔اس کے علاوہ یہ فلم ایسٹونیا اور سٹاک ہوم میں بھی دکھائی جا چکی ہے اور آئندہ دنوں میں اسے میامی،ایمسٹر ڈیم،پیرس اور لندن میں ہونے والے فلمی میلوں میں بھی دکھا یا جائیگا۔
فلم پروڈیوسر کا کہنا ہے کہ سنسر بورڈ زندگی کو مرد کے نکتہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں جبکہ میری فلم چار خواتین کے نقطہ نظر ان کے خواب اور ڈر پر مبنی ہے۔


قبل ازیں مغربی بنگال کی فلم ذوالفقار میں بھی مسلمانوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا۔انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی
فلم میں کلکتہ شہر کے مسلم اکثریتی علاقے خضر پور،میٹا برج اور گارڈن ریچ کو ایسے علاقے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں نہ ہندوستان کا قومی ترانہ بجایا جاتا ہے اور نہ ہی جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔فلم کے ذریعے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی حب الوطنی کو براہ راست چلینج کیا گیا تھا بلکہ مسلمانوں کے امیج کو داغدار دکھایا گیا ،کچھ ایسی تصویریں بھی دکھائی گئی جن میں مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں چاقو ہے۔

بھارتی ڈائریکٹر کا اگرچہ دعوٰی تھا کہ اس فلم ذوالفقار کی کہانی ولیم شیکسپیئر کی کہانی پر مشتمل ہے اور یہ ان کی پہلی کمرشل فلم ہے۔ایسے فلم سازوں کو اپنی فلم کو مقبول اور منافع بخش بنانے کیلئے مسلمانوں کو ویلن بنا کر پیش کرنا سب سے زیادہ آسان رہا ہے۔بھارت کی کئی فلمیں ایسی ہیں جن میں مسلمانوں کو جرائم پیشہ بنا کر پیش کیاگیا ہے۔بالی ووڈکی فلموں اور ٹی وی سیریز میں ہمیشہ مسلمانوں کو منفی کرداروں میں پیش کیا جاتا ہے۔

بنگالی فلم ذوالفقار اس لحاظ سے بھی سنگین تھی کہ اس میں مسلمانوں کوعلیحدگی پسند اور جرائم پیشہ دونوں بنا کر دکھا یا گیا ہے۔آغاز درگاہ پوجا کے تہوار سے ہوتا ہے اس کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ یہاں ایک اور زمین ہے جہاں نہ ہندوستانی قومی ترانی گایا جاتا ہے،اس کے بعد کہا جاتا ہے یہ پوجا اور ٹیگور کی سرزمین ہے۔اچانک ٹیگورکی تصویر پر خون آکر گرتا ہے۔

اس کے بعد محرم میں تعزیہ کی تصویر دکھائی گئی ہے۔جہاں بچے ہتھیار کے ساتھ ہیں۔بیک گراؤنڈ سے آواز آتی ہے یہ ڈگ علاقہ ہے ۔یہ سٹی آف جوائے کلکتہ ہے۔واضح رہے ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ میں آنے کے بعد انگریزوں نے یہاں ندی کنارے ہندوستان کا پہلا ڈگ تعمیر کیا تھا۔اس علاقے میں بہار،اترپردیش اور جھاڑ کھنڈ سے آئے مزدور طبقے کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔

یہاں پر 200 سالہ قدیم لکشمی مندر بھی ہے۔فلم میں دکھایا گیا ہے کہ یہاں صرف مسلمان بستے ہیں اور ان کے بچوں کے ہاتھوں میں بندوقیں اٹھائی ہوئی ہیں۔
ذوالفقار بھی اشتعال انگیز اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والی فلم تھی۔ہندوستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ فرقہ پرستی اور مسلم منافرت میں بھارتی فلمی اداکاروں،ڈائریکٹروں کے ساتھ گلوکا ر بھی میدان میں آگئے ہیں جیسا حال ہی میں بالی ووڈ کا گلوکار سونو نگھم نے فجر کی اذان کی آواز پر اعتراض اٹھایا ہے کہ اس سے اس کی نیند میں خلل پڑتا ہے اور یہ جرم ہے۔

جب سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا تو سونو نگھم نے وضاحت کردی کہ وہ صرف مساجد میں ہی نہیں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ میں لاؤڈسپیکر کے استعمال کیخلاف ہیں۔
ایک سروے کے مطابق سونو نگھم کا گھر جس جگہ واقع ہے اس علاقے میں تین مساجد ہیں اور تینوں مساجد سونو نگھم کے گھر سے تقریباََ 600 میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔سونو نگھم کے گھر کی بائیں جانب تقریباََآدھا کلومیٹر کے فاصلے پر مدرسہ تعلیم القرآن ہے۔

جہاں فجر کی اذان پانچ بج کر 20 منٹ پر ہوتی ہے۔مسجد کے ایک منتظم نے بتایا ہے کہ سونو نگھم چار سال پہلے یہاں رہنے آئے تھے اور یہ مدرسہ گزشتہ 35 سال سے قائم ہے۔اب سے پہلے کبھی کسی نے اذان کی آواز کے حوالے سے شکایت نہیں کی۔سونو نگھم جہاں رہتے ہیں وہاں اذان کی آواز جاتی بھی نہیں ہے یہ صرف ایک پبلسٹی کرنے کا حربہ ہے۔
یاد رہے کہ سونونگھم بالی ووڈ میں آنے سے قبل مذہبی تقریبات میں جاگرن گایا کرتے تھے۔

وہ بھول گئے ہیں اس وقت کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہوگی۔اب نئے گلوکار آگئے ہیں اور کوئی انہیں نہیں پوچھتا۔موجود ہ حالات وواقعات سے یہ اخد ہوتا ہے کہ بائیں بازو کیلئے یہ بدترین وقت ہے۔پارلیمنٹ میں بھی ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔کیرالہ اور تری پورہ میں اس کی ایک حصہ ضرور اقتدار میں ہے لیکن لگ بھگ 35 سال تک جس ریاست پر اس کی حکومت قائم رہی اسی بنگال میں اس کی حالت سب سے پتلی ہے۔کہا وہاں دوبارہ اقتدار میں آسکے گی اور آر ایس ایس اس وقت اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنا چاہتی ہے تاکہ جس نظریے نے اس کے ساتھ سب سے زیادہ ٹکر لی اس کا کام تمام کرسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hijab Aur Muslim Khawateen Ki Krdarkashi Ki Sharamnak Koshish is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 June 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.