”ہارس ٹریڈنگ“کے ٹاپ ٹرینڈ”سیاسی گھوڑے“

سیاسی جماعتیں دغا بازی اور بے اعتباری کے باوجود خرید و فروخت سے باز نہیں آتیں

پیر 1 مارچ 2021

Horse Trading K Top Trend Siyasi Ghoore
آر ایس آئی
سینیٹ انتخابات میں عوام کی دلچسپی کے لئے فقط 3 ہی باتیں ہیں،اول یہ کہ سینیٹ کے انتخابات کھلے عام ہوتے یا پھر نقد دام کے کاروباری اصول کے تحت؟،دوئم سینیٹ انتخابات کے نتائج کے بعد کسے پرائز ملتا ہے اور کون ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سرپرائز ہوتا ہے؟اور سوئم یہ کہ ہارس ٹریڈنگ میں ٹاپ ٹرینڈ پر کون کون سے ”سیاسی گھوڑے“ رہتے ہیں؟گویا سینیٹ انتخابات نہ ہوئے ایک”سیاسی تماشا“ ہوا اور تماشا بھی ایسا جسے سیاست کے رہنماء قواعد و ضوابط کے بجائے کاروباری انداز میں کھیلنے کی کوشش کی جائے گی۔

شاید اسی لئے ہمارے سینیٹ انتخابات کے دوران جس لفظ کا تذکرہ بار بار سننے میں آتا ہے وہ لفظ ”ہارس ٹریڈنگ“ ہے ویسے تو انگریزی زبان میں اس لفظ کے معنی ”گھوڑوں کی خرید و فروخت“ کے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال ماضی میں واقعی گھوڑوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ہی ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

تاریخی دستاویز کے مطابق 1820ء کے آس پاس تاجر حضرات اچھی نسل کے گھوڑے خریدنے کے لئے ”کاروباری چالاکی“ کا استعمال کرتے تھے۔


تجارت کا یہ طریقہ کچھ اس طرح کا تھا جس میں چالاکی،سازش،پیسے اور آپسی تعلقات کے بل بوتے پر عمدہ اور اچھی نسل کے گھوڑوں کو سستے نرخوں پر خریدنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی جاتی تھی مگر پھر رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ گھوڑوں کی افادیت،اہمیت اور ضرورت ختم ہوئی تو ان کی تجارت یعنی ہارس ٹریڈنگ بھی ختم ہو گئی یعنی گھوڑے پس منظر میں چلے گئے اور ان کی جگہ لینے کے لئے ”سیاسی گھوڑے“ پیش منظر پر آگئے اور ماضی میں گھوڑوں کی تجارت کے لئے خاص سمجھی جانے والی معروف اصطلاح سیاست میں ”ہارس ٹریڈنگ“ کے نام سے مقبول عام حاصل کر گئی۔

سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی جماعت اپنی مخالف پارٹی کے ارکان کو لالچ،عہدے،پیسے، شہرت یا کسی دیگر قسم کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے تو ارکان اسمبلی یا ارکان پارلیمنٹ کی اس قسم کی خرید و فروخت کو ”ہارس ٹریڈنگ“ قرار دے دیا جاتا ہے۔
”ہارس ٹریڈنگ“ اس خاص سیاسی صورتحال میں کی جاتی ہے جب کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو حکومت سازی کے لئے اکثریت ملنے کی امید بالکل بھی نہ ہو اور اسے اپنی اقلیت کو اکثریت بدلنے کے لئے باہر سے سیاسی حمایت کی ضرورت درپیش ہو۔

پھر وہ سیاسی جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح سے مخالف،آزاد یا دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ارکان انہیں حمایت دے دیں اور ان کی حکومت بن جائے اس کے لئے ہر طرح کے حربے کا آزادانہ اور بے باکانہ استعمال کیا جاتا ہے اور سیاست میں چالاکی،پیسہ،عہدہ کا استعمال ہی”ہارس ٹریڈنگ“ یعنی ”سیاسی گھوڑوں“ کی خریداری کہلاتی ہے سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے ہاں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ”سیاسی گھوڑوں“ کی منڈی سجتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے عید قربان پر ملک بھر میں شہر شہر،قریہ قریہ بکرا منڈیاں سجائی جاتی ہے بس ان دونوں منڈیوں میں فرق اور تفادت صرف اتنا سا ہے کہ بکرا منڈی میں جانور فروخت کے لئے دور دراز علاقوں سے ہانک کر لائے جاتے ہیں جبکہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر ہونے والی ”ہارس ٹریڈنگ“ کے لئے”سیاسی گھوڑے“ اپنی مرضی سے بکنے کے لئے سیاسی منڈی میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔

پاکستان میں سینیٹ انتخابات کی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے یہ سیاسی گھوڑے انتہائی زیرک اور چالاک واقع ہوئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کس طرح اپنے دام بڑھانے ہیں؟اور کس طرح خریدار کو اس حد تک بلیک میل کرنا ہے کہ اس کے پاس زیادہ سے زیادہ لگانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے اس لحاظ سے ہم یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں اگر بکنے والے ”سیاسی گھوڑے“ ہیں تو پھر یقینا خریدنے والوں کو ”سیاسی گدھے“ ہی کہا جا سکتا ہے۔


سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے جو فائدے”سیاسی گھوڑوں“ کے حصے میں آتے ہیں اس کے عشر عشیر فوائد بھی کبھی ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ”سیاسی گدھے“ حاصل نہیں کر پائے ہیں مثال کے طور پر سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں بھی ہارس ٹریڈنگ کے نام پر ”سیاسی گھوڑوں“ کی زبردست خرید و فروخت ہوئی تھی لیکن ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں نے سینیٹ کے سپیکر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم پیش کی تو ”سیاسی گھوڑوں“ نے اپنے مالکان کے ہی خلاف ووٹ دے کر ثابت کر دیا تھا کہ وہ واقعی زیرک،چالاک اور موقع پرست ”سیاسی گھوڑے“ ہیں جبکہ انہیں خریدنے والے ”سیاسی گدھے“ مگر سب سے زیادہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کے دوران فروخت ہونے والے ”سیاسی گھوڑے“ اپنے دغا بازی اور بے اعتباری کے لئے غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں ”ہارس ٹریڈنگ“ سے باز نہیں آتیں اس لئے ہمارا تو ماننا ہے کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان حالیہ سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ ڈالنے کے حق میں کوئی فیصلہ جاری کر دیتی ہے تو اس عدالتی فیصلہ کا سب سے زیادہ نقصان ”سیاسی گھوڑوں “ کو ہو گا اور پھر پاکستانی سیاست میں ان کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریک ہو جائے گا نیز ایوان بالا میں ان کی سیاسی ناقدری بھی دیکھنے والی ہو گی لیکن اگر سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کرنے کا پرانا طریقہ کار ہمیشہ ہی برقرار رکھا گیا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہارس ٹریڈنگ کرنے والے ”سیاسی گدھوں“ کو پہنچے گا مگر مصیبت تو یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کرنے والے،ہارس ٹریڈنگ کے مضر اثرات کا نشانہ بننے والے اور ہارس ٹریڈنگ کو صبح و شام برا بھلا کہنے،اور صلواتیں سنانے والے بھی دل سے یہی چاہتے ہیں کسی وجہ فقط ایک ہے کہ گھوڑے آخر گھوڑے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ سیاسی ہی کیوں نہ ہوں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Horse Trading K Top Trend Siyasi Ghoore is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.