ہم اور ہمارا میڈیا

ہمارے معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو غلط باتیں دیکھتے ہیں،سنتے ہیں اور پھر ان پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔یہ ہمارا قومی المیہ ہے،اب اس خاموشی کا فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جنہیں ہماری خاموشی میں ہی فائدہ ہے

منگل 10 مارچ 2020

hum aur hamara media
تحریر: حبیب الرحمن حلیمی

حالیہ دنوں میں چل رہے بے پناہ مسائل میں ابھی ایک اور مسئلہ عورت مارچ کے حوالے سے ہے جس کی بحث میڈیا پر چھڑ چکی ہے، بلکہ بحث سے زیادہ اسے جنگ کہنا زیادہ مناسب ہوگا...کیونکہ جنگ میں ہی کسی بھی نتیجے کی پرواہ کیے بغیر تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں،اس سے فریق مخالف کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے،آپ کے اپنے مفاد کے خلاف کیا چیز جا رہی ہے یہ سب بعد میں دیکھا جاتا ہے۔

جبکہ بحث میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ایک دوسرے کو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے۔اس کی باتوں کودلائل کو سمجھا جاتا ہے،ان کو حقیقت کے پلڑے میں رکھ کر تولا جاتا ہے اور پھر دلائل ہی سے ان کو رد کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن یہ سب مہذب معاشروں میں ہوتا ہے,, مہذب دنیا کے لوگ پڑھے لکھے انداز میں اختلافی مسائل کو بیٹھ کر حل کرتے ہیں۔

حال ہی میں ایک پروگرام میں ''عورت مارچ'' کے حوالے سے چل رہی بحث اس وقت لفظی جنگ میں بدل گء جب ماروی سرمد اور خلیل قمر صاحب کے درمیان تکرار شروع ہو گئی۔میں اس بحث میں جانے سے گریز کروں گا کہ غلط کون تھا اور صحیح کون،کس نے پہل کی اور کس نے زیادتی کی،اس کے لیے ملک بھر میں بڑے بڑے دانشور اپنی اپنی کھوپڑیاں گھما رہے ہیں۔میرا بات کرنے کا مقصد ایک اور ہے۔

ایک اور معاشرتی پہلو پر روشنی ڈالنا ہے جو کہ زیادہ گھمبیر ہے اور وہ مسئلہ ہے ہماری معاشرتی بے حسی کا۔
آپ کہیں گے یہ میں کس مسئلے میں اس موضوع کو گھسیٹ لایا۔چلیں میں وضاحت کیے دیتا ہوں۔بے حس معاشرہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے سامنے کچھ بھی ہوتا ہے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی. اب اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ لوگ غلط بات کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگ غلط بات کی اپنے عمل سے مخالفت نہیں کرتے۔

ہمارے معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو غلط باتیں دیکھتے ہیں,, سنتے ہیں اور پھر ان پر خاموشی اختیار کرتے ہیں. یہ ہمارا قومی المیہ ہے. اب اس خاموشی کا فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جنہیں ہماری خاموشی میں ہی فائدہ ہے۔
مثلاً اس حالیہ مسئلے میں اگر دیکھا جائے تو ان دونوں حضرات سے زیادہ قصور وار میڈیا ہے. جو صرف اپنی ریٹنگز کے لیے ایسے متنازع مسائل کو جنم دیتا ہے جس سے نظریاتی انتشار پیدا ہوتا ہے. پھر اس انتشار کو لے کر یہ میڈیا اتنا واویلا کرتا ہے کہ پوری دنیا دیکھتی ہے. 
ایسا ممکن کیوں ہے,, کیوں ہر بار ایک نیا تنازع جنم لیتا ہے اور ہفتوں عوام کو اپنی گرفت میں لیے رکھتا ہے.. ایسا صرف ہماری بے حسی کی وجہ سے ہے.. یہ ہماری قومی ذہنی پسماندگی کا ثبوت ہے۔

آیے آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔آپ میں سے اکثر نے یہ بات سنی ہوگی کہ کسی ملک میں ایک بار انڈے مہنگے ہو گئے۔صرف چند پیسے مہنگے ہوئے,, اب عوام نے کیا کیا کہ انڈے خریدنے بند کر دہے. اس سے یہ ہوا کہ انڈوں کے تاجروں کو فکر لاحق ہو گئی کہ اگر عوام نے انڈے خریدے ہی نہیں تو ہمیں جو پہلے منافع مل رہا تھا وہ بھی نہیں ملنا بلکہ ساری سرمایہ کاری بے کار جائے گی. لہذا ایک ہفتے کے اندر ہی انڈے نہ صرف پہلی قیمت پر آ گئے بلکہ مزید سستے بھی ملنے لگے.. یہ تو ایک مثال تھی ایسی کئی مثالیں ہمیں قومی شعور رکھنے والے معاشروں سے ملیں گی....
اب سوال پیدا ہوتا ہے ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں، تو میرے پیارے دوستو! وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس یک جہتی,, ذہنی شعور,, قومی فہم و فراست کا فقدان ہے۔

ہمارا میڈیا ایسے نت نئے متنازع مسائل کھڑے کرتا ہی رہتا ہے اور ہم ان تماشوں کو چسکے لے لے کر دیکھتے ہیں۔جن سے ان چینلز کی ریٹنگ اوپر جاتی ہے,, جب ریٹنگ اوپر جاتی ہے تو ان کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے. میڈیا کا تو فائدہ ہو گیا۔لیکن عوام دو دھڑوں میں بٹ کر آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع ہو جاتی ہے۔بھلا آپ سوچیں کہ ایک واضح خلاف شرع,, خلاف آئین اور پاکستان کی نظریاتی اساس سے اختلاف رکھنے والی شخصیت کو ایسے لوگوں کے ساتھ بٹھانا جو کہ پاکستان کا دفاع کرتے ہوں,, شریعت کا دفاع کرتے ہیں,, اور پھر ان میں انتہائی حساس موضوع پر بحث چھڑوا دینا,, یہ میڈیا کی سازش ہے کہ نہیں,,, 
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسی مردہ ضمیر,, گلی سڑی اور بدبو دار غلامانہ ذہنیت کا شکار ملک دشمن عناصر کو اس احترام کے ساتھ مہمان پینل میں بٹھانا تو دور ان کا انٹر ویو کرنا ہی نہیں چاہیے۔

کیونکہ وہ تو ہر بار ہرزہ سرائی کریں گی... لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے,, ان عناصر کو نہ صرف احترام سے بٹھایا جاتا ہے بلکہ معتبر و محب الوطن شخصیات کی نسبت ان کا زیادہ دفاع کیا جاتا ہے۔
اب میڈیا کا کردار تو ہمارے سامنے واضح ہو ہی گیا.. اس کا حل تو حکومت وقت کے پاس ہے. وہ چاہے تو اس پر بندھ باندھ سکتا ہے.. 
ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم عوام کیا کر سکتے ہیں, ہمارے پاس کیا طاقت ہے.. تو سب سے پہلے ہمیں اپنی ذہنی تربیت کرنا ہوگی.. کسی بھی ناجائز بات کے خلاف ایک خودکار سوچ کو جنم دینا ہوگا جس سے ہم سازشی عناصر کو یہ باور کروا سکیں کہ ہم ان کے جال میں آنے والے نہیں...
آپ کسی بھی ایسی متنازع خبر کو سنیے تو سب سے پہلے خود دوسروں کو اس چینل کو دیکھنے سے منع کریں,, اس متنازع پروگرام سے دور رہیں,, اس کو زیر بحث لانے سے گریز کریں.. یاد رکھیں کسی بھی چیز کی اچھی یا بری شہرت تب ہی ہوتی ہے جب اس کو زیر بحث لایا جائے یا موضوعِ گفتگو بنایا جائے۔

یہاں حال یہ ہے کہ اگر کسی نے سنا,, فلاں ایکٹرس کی ناشائستہ تصاویر لیک ہوئی ہیں تو گھنٹوں کے اندر اس کو سرچ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے.. ایسی کئی مثالیں موجود ہیں.. میرے دوستو بھلا پوچھو کہ ہر بالغ و باشعور انسان کو معلوم ہے کہ فحش تصویر کیا ہوتی ہے.. تو کیا اس مواد پر جانا ضروری ہے؟؟
کیا اس سے کنارہ کشی ممکن نہیں؟؟.ہمیں اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے,,, جب تک ہمیں یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہم سے کیا چھینا جارہا ہے,, اغیار میں ایسے تماشوں میں الجھائے رکھیں گے... 
بقول اقبال
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ایک قوم کی طرح ردعمل دینے کی عادت اپنائیں،اس کے لیے ہمیں اس بے حسی سے جاگنے کی ضرورت ہے،ورنہ یہ حالت مفلوجی ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی.... 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

hum aur hamara media is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 March 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.