لبنان کو ”شام“بنانے کا منصوبہ!

مسلم ریاستوں کی تقسیم کا ”نیومڈل ایسٹ پلان۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان اور ایران افغانستان ولبنان میں امریکی سازش کی راہ میں رکاوٹ

بدھ 13 دسمبر 2017

Libnan Ko Sham Bnany Ka Mansoba
امتیاز الحق:
افغانستان اور شام کے بعد لبنان میں خانہ جنگی کرانے کیلئے وزیراعظم سعد حریری کو سامنے لایا گیا ہے۔ جواز یہ بنایا جارہا ہے کہ جس طرح پاکستان حقانی گروپ کے ذریعے افغانستان میں مداخلت کررہا ہے اسی طرح ایران لبنان میں وزیراعظم حریری کو قتل کرا کر بیروت میں اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

مقصد واضح ہے کہ افغانستان اور شام میں ناکامی کے بعد مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں مستقل قدم جمانے کیلئے امریکہ کو ایسا خط علاقہ چاہیے جہاں وہ بحران ، کشیدگی، تفرقہ ، تشدد کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرسکے، اپنے دشمنوں کو حدود میں رکھے قومی ریاستوں اور حکومتوں کو ڈرا دھمکا کر کنٹرول کرے۔امریکی حکمت عملی میں ”بحران پیدا کرو بحران میں زندہ رہو“ شامل ہے ۔

(جاری ہے)

پینٹا گان کی حالیہ پالیسی میں پاکستان اور ایران کو نشانے پر رکھ کر ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں دونوں کو اپنے اپنے علاقوں میں اہم کردار ادا کرنے سے رکنا ہے۔ دونوں ممالک کی اہمیت واضح ہوچکی ہے کہ افغانستان میں روس، چین، ایران، وسط ایشیائی ریاستوں کی حمایت اور امریکی غلبے کا مقابلہ کرنے والے طالبان بظاہر ہمسایہ ملک پاکستان وایران اور مذکورہ ممالک کے ساتھ نسبتاََ نرم رویہ رکھتے ہیں ۔

پاکستان ، ایران اس ضمن میں امریکہ کی نسبت امن کے قیام میں اہم پوشزیشن کے ساتھ ساتھ خطے میں استحکام کیلئے کردار ادا کرنے کے قابل ہوگئے ہیں جو کہ افغانستان اور نئے کھولے جانے والے محاذ” لبنان“ میں رکاوٹ ہیں۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے سعد حریری اور حقانی جواز کے ساتھ سعودی عرب اور ایران کے مابین علاقائی اختلاف کو مذہبی ومسلکی اختلاف میں تبدیل اور قومی و ثقافتی تقسیم کو فرقہ وارانہ رتقسیم میں بدل دیا جائے ۔

اس تقیسم پر عملدرآمد2008ء میں صدر بش جونیئر نے”مڈل ایسٹ پراجیکٹ“ کے منصوبہ کے تحت لبنان کی 2006ء کی جنگ کے فوری بعد شروع کیا ۔ اس سے قبل عظیم مشرق وسطیٰ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی اور یہ لفظ بھی تاریخی طور پر مشرق وسطیٰ کی سرحدوں ، ریاستوں اور ممالک کی تقیسم کے خودبرطانیہ اور فرانس نے تفویض کیا تھا لیکن 2006ء میں اسرائیلی حملہ کو ناکام بنانے پر جہاں دنیا حیران ہوئی وہیں اسرائیلی و امریکی قیادت میں خطرے کی گھنٹی بج گئی کہ ”گریٹر مڈل ایسٹ“ کی جگہ” نیو مڈل ایسٹ“ کے ذریعے مسلمانوں کو ایک بلاک میں متحد نہ ہونے دیا جائے۔

ان ممالک میں قومی وسیاسی اختلاف کر بڑھایا بعد ازاں نسلی کشیدگی میں بدلا جائے اسی مقصد کے تحت عربوں اور کردوں کے مابین تضاد پیدا کیا گیا تاہم بعد ازاں مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ مسلکی ایندھن تیار کیا گیا۔ اس تضاد کو اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں اور سی آئی اے نے عرب حکومتوں میں ایسے عناصر پیدا کئے جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے ”امریکی اقتصادی ماڈل کیلئے حالات کو مزید ساز گار بنایا۔

مسلم آبادیوں میں دشمنی کیلئے مسلکی تفریق کے تحت ایران کو شیعہ اور سعودی عرب کو سنی چیمپئن ظاہر کیا جبکہ دونوں ممالک میں مسلکی و مذہبی اکثریت واقلیت کا سوال نہیں تھا۔ دونوں ممالک نے اسلام کے اجتہادی تصور کے تحت علما کا ایک بورڈ بھی قائم کیاتھا لیکن اس بورڈ کو معاہدہ کی دستاویزات میں ہی رکھا گیا جو حالات کے تحت امریکی سازش کے ذریعے عملدرآمد سے روکا گیا۔

2003ء میں عراق پر حملہ سے قبل عرب لیگ کے ممالک باخبر تھے۔ امریکہ اپنے حلیف ممالک کے ساتھ مشرق وسطی کی سرحدوں کی دوبارہ سے حد بندی یانئے نقشے پر کام کررہا ہے۔ بدعنوان عرب اشرافیہ کے مطلق العنان عرب حکام کے مفادات بھی اس سازش سے جڑ گئے اور ”نئے مشرق وسطیٰ“ کے منصوبے کے ساتھ وابستگی اس حد تک ہوگئی کہ عوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے وہ مذہبی تفریق تفرقہ کی امریکی حکمت عملی کا حصہ بن گئے جو کہ مذکورہ ماڈل کیلئے ضروری تھی جس طرح افغانستان میں پاک افغان مسلم آبادی کو سرخ کافر کے خلاف جہاد کے نام پر اکھٹا کرکے مجاہدین کا لقب دیا گیا بعد ازاں طالبان کے ذریعے سودیت یونین کو شکست سے دوچار کردیا تو اپنا مقصد حل ہونے کے بعد متحدہ افغان جنگجوؤں اور تجربہ کار قیادت کو بے اثر کرنے کیلئے پاکستان میں فرقہ پرستی کو ہوادی گئی مسلکی تفریق کر بڑھایا گیا اسلام کا پرچار کرنے والوں کے درمیان عملاََ قتل وغارت اور دہشت گردی کرنے والے عناصر کو پیدا کیا اور یوں مسلم عقیدہ رکھنے والوں کے مابین شیعہ سنی کی دشمنی ظاہر کرنے کیلئے افغانستان میں اور لبنان میں دو کیمپ بنائے گئے پاکستان کو سنی اور شام ، ایران حزب اللہ کو ایک ہی کیمپ ظاہر کیا گیا۔

پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں فرقوں کے مابین لڑائیوں کو مذکورہ اشرافیہ اور بدعنوان عرب حکام کے ذریعے کنٹرول بھی کرایا جاتا ۔ ایک دوسرے کو کمزور کرنے، آبادیوں میں بے یقینی اور ابہام پیدا کیا گیا ہے جس کے نتیجہ کے طور پر انہی ممالک کے وسائل باآسانی کنٹرول کئے جاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عرب بہارکا تجربہ ناکام ہونے پر صدر اوبامہ کے دور حکومت میں ایک پالیسی ”جمہوریت پروجیکٹ “ بنائی گئی جس کے تحت عرب ممالک میں نام نہاد جمہوری قوتوں کی تائید وحمایت بادشاہتوں اور آمریتوں کو ختم کرنے کے اہداف بنائے گئے پالیسی کی وجہ سے مڈل ایسٹ میں اتھل پتھل شروع ہوگئی جو خونریزی میں بدلی اور کمزور حکومتیں ڈھیر ہوگئیں ، تاہم نئے ماڈل سے مشرق وسطیٰ میں اب وہ نتائج نہیں مل رہے۔

خاص طور پر شام میں بدترین ناکامی ترکی میں طیب اردگان کی شکل میں قدرے امریکی مخالف پاکستان کی صورت میں بداعتماد اتحادی، افغانستان میں تاریخی شکست ایران کا عراق میں مضبوط ہو کر پینٹا گون کی حمایت یافتہ داعش کو تباہی کی جانب دھکیلنے کے مضمرات ، امریکی قیادت اور پینٹا گون کو پریشان کررہے ہیں اور اب اوباما کی پالیسی کو ریورس کرکے سعد حریری کو لبنان سے نکال کر اس کے ذریعے ایسے حالات پیدا کرنا ہیں کہ اب براہ راست مشرق وسطیٰ کا کنٹرول خود سنبھالا جائے اور لبنان کو مشرق وسطیٰ کے بحران کا عالمی مرکز بنادیا جائے لیکن لبنانی وزیراعظم وزیراعظم سعد حریری کے استعفیٰ سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں ، لبنان کے صدر کے علاوہ بیروت کی گلیوں ، کوچوں میں تمام فرقوں،مسالک کے لوگوں نے باہمی طور پر مظاہرے کئے اور لبنان کو شام بنانے کی سازش کو ناکام بنانے میں پہلی دراڑ ڈالی۔

اسی کے ساتھ ساتھ روس ، چین، ایران، عراق ، شام، فرانس، جرمنی ودیگر ممالک نے لبنان میں بحران کو ”چائے کی پیالی میں طوفان“ کے مترادف قرار دیا اور امریکی قیادت کو پیغام دیا کہ وہ لبنان میں مصنوعی بحران پیدا نہ کرے۔ علاوہ ازیں نئی امریکی پینٹا گون پالیسی کے تناظر میں پاکستان کی عسکری قیادت کو یہ ادراک ہوگیا ہے کہ مذکورہ پالیسی میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان ، شام کے تناظر میں ایران اور نئی حکمت عملی”نیو مڈل ایسٹ“ کے تحت ایران نشانے پر آگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف آف سٹاف جنرل قمر باجوہ نے ایران کا تین روزہ دورہ اور پاک ایران سرحد کو دوستی سرحد قرار دیکر واضح پیغام دیدیا کہ اب افغانستان ولبنان میں دونوں ملک کسی بھی امریکی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔

اسی بنا پر جلد ہی امریکی وزیردفاع جمیز میٹس پاکستان کا دورہ کررہے ہیں جس کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ امریکی حکمت وپالیسی کا حصہ بننے وگرنہ عالمی اور امریکی اقتصادی پابندیوں کیلئے تیار ہوجائے۔ مبصرین اس دورہ کو ڈومور کی بجائے ڈو اینڈ ڈائی کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ جب امریکی سیکرٹری دفاع اپنے ناکام دورہ کے بعد واپس واشنگٹن جا کر اپنی حتمی رپورٹ میں پاکستان وایران بارے اتحاد اور واضح پالیسی بنائیں گے تو لبنان اور پاکستان میں اس کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہوجائیں گے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ دونوں ملکوں میں پراکسی وار بڑھادی جائیگی۔ خفیہ ایجنسیوں، کرایہ کی پرائیویٹ آرمی ، داعش کے نام پر فرقہ پرست عناصر کو پاکستان میں استعمال کیا جائیگا۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں پولیس کے اعلیٰ افسران کی ٹارگٹ کلنگ پنجاب سے متعلق افراد کے قتل کو اسی پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لبنان میں بھی ایسی کاروائیوں کے ذریعے الزام ایران پر لگایا جائے گا جہاں جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں۔

لبنان میں پاکستان ایسی ہی ہیجان خیز صورت حال پید اکردی گئی ہے۔ ایسی صورتحال جو کہ خطہ کے ممالک میں امریکی پالیسی کی ممکنات کو ناممکنات میں بدل سکتی ہو وہ مسلم ممالک کا باہمی اتحاد بالخصوص پاکستان کا اہم کردار ادا ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت میں صلاحیت ہے کہ ”ہر چیز ممکن ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Libnan Ko Sham Bnany Ka Mansoba is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.