نوٹ کا سفر

ساڑھے چار ہزار کیوں ؟ ایک دم تم نے پاانچ سو روپے بڑھا دیئے۔۔ ثریا نے دودھ والے پہ برھم ہوتے ہوئے کہا کیا کروں باجی بجٹ بعد میں آیا دودھ کے دام پہلے بڑھ گئے ، ہمیں بھی آگے باڑے سے مہنگا ہی پڑتا ہے

Farhana Sadiq فرحانہ صادق ہفتہ 24 جون 2017

Note ka safar
ساڑھے چار ہزار کیوں ؟ ایک دم تم نے پاانچ سو روپے بڑھا دیئے۔۔ ثریا نے دودھ والے پہ برھم ہوتے ہوئے کہا کیا کروں باجی بجٹ بعد میں آیا دودھ کے دام پہلے بڑھ گئے ، ہمیں بھی آگے باڑے سے مہنگا ہی پڑتا ہے آپ حساب لگالو آپ کے چار ہزار پانچ سو تیس بنتے ہیں، میں نے تیس روپے چھوڑ دئے۔ رحیمو دودھ والے نے دانت نکالے۔ احسان ہے تمھارا بھائی۔۔ ثریا نے ہاتھ میں پکڑے چار ہزار دیتے ہوئے برا سا منہ بنایا ۔

یہ لو باقی پانچ سو میں لاتی ہوں۔ ابھی مہینے کی آٹھ نو تاریخ ہی تھی مگر تنخواہ کے لفافے میں پیسے حساب کتاب کے رہ گئے تھے۔ اس نے کچھ سوچ کراپنے بارہ سالہ بیٹے کے گلک میں جھانکا سو پچاس کے نوٹوں کے درمیان پانچ سو کا نوٹ جھلک رہا تھا۔ اسے یقین تھا اس کے بیٹے کے پاس پیسے ضرور ہوں گے کیوں کہ وہ کئی ماہ سے وڈیو گیمز خریدنے کے لئیے اپنے جیب خرچ میں سے پیسے بچا کر جمع کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

ثریا کے ہاتھ سے پانچ سو کا نوٹ لے کر رحیمو نے بڑے سلیقے سے تہہ لگائی اور قمیض کی جیب میں اڑستے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ دکان بند کرنے سے پہلے رحیمو نے گن کر دس ہزار واسکٹ کی اندرونی جیب میں رکھے اور دکان کے بائیں جانب اوپر جاتی سیڑھیوں پہ چڑھ گیا پہلی منزل پر بنے گھر کی گھنٹی بجا دی۔ یہ دکان کا کرایہ لے لیں ملک صاحب، میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق دس تاریخ ہونے نہیں دی۔

رحیمو نے خوشامدانہ انداز میں کہا۔ ہاں ہاں چلو اچھا ہوا۔ ملک صاحب نے پیسے گنتے ہوئے کہا پھر بولے بھئی اس میں ایک ہزار کم ہیں، کیوں ملک صاحب؟ بھئی پچھلے ماہ تمھہں بتایا تو تھا کہ تمہارا دس ماہ کا کرائے کا ایگریمنٹ مکمل ہوگیا ہے اس ماہ سے کرایہ دس فی صد بڑھا کے ہوگا۔ میں تو حساب کتاب سے پیسے لایا تھا اگلے ماہ کرلیجیئے گا۔ رحیمو نے درخواست کی نہیں بھئی مجھے بھی آگے دکانوں کے گیس پانی بجلی کے پیسے بھرنے ہوتے ہیں۔

اگر تمھاری گنجائش نہیں تو دیکھ لو میں کسی اور کو دکان کرائے پر دے دیتا ہوں۔ ملک صاحب نے حتمی جواب دیا نہیں نہیں میں دیتا ہوں۔ رحیمو نے قمیض میں اڑسا پانچ سو کا نوٹ نکالا اور اس میں پانچ سو اور ملا کر ملک صاحب کو دے دیا۔ میں کب سے کہہ رہی ہوں بچوں کے اسکول کی اس ماہ کی فیس کا چالان جمع کروانا ہے پیسے دے دیجئے۔ ڈائنگ ٹیبل پر شوہر کے سامنے ناشتے کی ٹرے رکھتے ہوئے بیگم آسیہ بولیں۔

اچھا ! دونوں بچوں کی فیس کے بیس ہزار ہوئے نا میری الماری دراز میں سے لے لو ، ملک صاحب نے اخبار پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا ، بیس نہیں بائیس ہزار ۔۔۔ بچوں کی فیس میں ہزار روپے بڑھ گئے ہیں۔ ارے ایک دم ہزار روپے، حد ہے بھئی۔ ایسی بھی کیا اندھیر نگری!!! ملک صاحب نے ناگواری سے کہا، ارے اب بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانا ہے تو یہ سب برداشت ہی کرنا ہوگا نا ۔

بیگم آسیہ نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ نقیب احمد مردانی نے تیس سال پہلے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اپنا اسکول شروع کیا تھا اور آج پورے شہر میں ان کے اسکول کے دس کیمپس تھے۔ ان تیس سال کی انتھک محنت نے ان کی صحت پہ گہرے ثمرات مرتب کئے تھے وہ ذیابیطس کے ساتھ ساتھ ہارٹ اٹیک کا شکار بھی ہوگئے تھے۔ اسکولوں کی ذمہ داری اب ان کے بچوں نے سنبھال لی تھی اور انکا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں کتابوں اور ہاسپٹل میں ڈاکٹرز کے ساتھ میٹنگ میں گزرتا تھا۔

آج جب ماہانہ چیک اپ کے بعد انہوں نے ہاسپٹل کے بل میں پچھلے ماہ کی بہ نسبت دس ہزار کا اضافہ دیکھ کر خفگی کا اظہار کیا تو کیش کاؤنٹر پر بیٹھا لڑکا مسکرا کر بولا۔۔ سر کیا کریں مہنگائی اتنی ہوگئی ہے، آپ ہمارے ریگولر پیشنٹ ہیں اس لیے کنسیشن کے بعد یہ چارجز بنے ہیں، عید کی خوشی میں ہاسپٹل والوں نے اپنے سبھی ملازمین کو ایک جوڑا کپڑے اور ہزار روپے عیدی دی تو جمال نے وہ ہزار روپے گھر آکر ثریا کے ہاتھ میں رکھ دئیے ۔ ثریا نے خوشی خوشی اس کے دو پانچ سو کھلے کروائے اور ایک نوٹ چپکے سے اپنے بیٹے کے گلک میں واپس رکھ دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Note ka safar is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 June 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.