پاکستان کا عدالتی نظام اورمسلم لیگ ن کا منشور!

”عوام“ کو سیاسی چال کے طور پر استعمال کر نے کا ڈھونگ عوامی عدالتوں کے قیام کے مفروضے سے بحث کا ایک نیا باب کھل جائیگا

منگل 22 مئی 2018

Pakistan ka adalti nizaam aur Muslim League (N) ka manshoor
محمد منیر احمد کریمی
مسلم لیگ ن کے منشورصفحہ 84 پرلکھا ہے کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ ہماری پارٹی آئین میں دی گئی ضمانت کے مطابق عدلیہ کی خود مختاری قائم رکھے گی‘آج کل مسلم لیگ ن کی عوامی عدالت کے قیام کی تحریک خوشگوار احاطے میں داخل ہو چکی ہے۔ معلوم نہیں ' عوامی عدالت کا نعرہ ہمیشہ کی طرح ایک سیاسی چال ہے یا حقیقی معنوں میں عوامی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

بہرحال اس مقصد کیلے منشور میں کچھ ترمیم ضرور کرنی پڑے گی۔ پاکستان کا عدالتی نظام اس وقت سول کورٹ سیشن کورٹ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ایوانوں پرمشتمل ہے۔ پاکستان ایک آئینی دستوری ریاست ہے جسکی بنیاد پرقوانین اور دیگر ریاستی امور وجود میں آتے ہیں۔

(جاری ہے)

عوامی عدالتوں کے قیام کے مفروضے سے بحث کا ایک نیا باب کھل جائے گا اور ایک نیا دستوری نظام ریاست میں رائج کرنے کیلئے غور وفکر شروع ہوگا جس میں سفارش کی جائے گی کہ پاکستانی ریاستی عدالتی نظام کے متبادل پاکستانی عوامی عدالتی نظام قائم کیا جائے معمولی فوجداری مقدمات خاندانی مقدمات اور جائیداد وغیرہ کے مقدمات کیلئے عوامی سول کورٹ معمولی دیوانی مقدمات چوروں ڈاکووٴں، قتل و زنا کے مقدمات کیلئے عوامی سیشن کورٹ، غیر معمولی فوجداری اور دیوانی مقدمات بھتہ خوری اغوا کاروں کے گینگ ٹارگٹ کلرز اور اس طرح کے دیگر مقدمات کیلئے ”عوامی ہائی کورٹ اور تمام قسم کے بڑے مقدمات انڈرورلڈ گینگ ملکی سطح کے بم دھما کے ٹارگٹ کلنگ گینگ اور دیگر ریاستی مقدمات کیلئے عوامی سپریم کورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے۔

عوای عدالتی نظام کو آئینی اور قانونی حیثیت مل جانے کے بعد پاکستان کے معاشرے میں مندرجہ بالاعوامی عدالتوں کے ایوان کچھ یوں منظر پیش کررہے ہوں گے، نچلی سطح پر فوجداری دیوانی مقدمات چور ڈاکو‘ لٹیرے اپنے مقدمات کا فیصلہ گلی کوچوں اور چوراہوں میں کررہے ہوں گے۔ درمیانی سطح پر بھتہ خور‘ اغوا کار اور ٹارگٹ کلرز اپنے اپنے فیصلے بیچ چوراہے کررہے ہوں گے اور اعلیٰ سطح پر عمران خان کی عوامی عدالت نواز شریف کو کرپشن کیس میں قید بامشقت کیلئے اڈیالہ جیل بھیج رہی ہوگی پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے والی عوامی عدالت شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کومعطل کررہی ہوگی ، متحدہ کے جلا وطن قائد کی عوام کی عوامی عدالت الطاف بھائی کو سب سے بڑا محب وطن قرار دے رہی ہوگی۔

فیض آباد دھرنے پر فائرنگ کرنے کی وجہ سے پورا پاکستان جام کرنے والی عوامی عدالت حکومتی کابینہ کے تمام وزراء کو مستعفی کررہی ہوگی، ممتاز قادری کے جنازے کی لاکھوں عوام کی سب سے بڑی عوامی عدالت ممتاز قادری کو شہید ملت کا سرکاری خطاب دے رہی ہوگی اکبربگٹی کی عوام کی عوامی عدالت پرویز مشرف کو لٹکا کر بدلہ لے رہی ہوگی خود ہی فیصلہ کرکے ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگانے والے چند مذہبی گروہ کی عوامی عدالت عدالت پرویز مشرف کو لٹکا کر بدلہ لے رہی ہوگی خود ہی فیصلہ کر کے ایک دوسرے پر کفر کا فتوی لگانے والے چند ہی گروہ کی عوامی عدالت ایک دوسرے کے خلاف کا حکم دے رہی ہوگی اور طالبان گروہ کی عوامی عدالت ریاست میں اپنا مطلوبہ نظام نافذ کرنے کا حکم دے رہی ہوگی۔

یعنی پورے عدالتی نظام کے مقابلے میں ایک مکمل عوامی عدالتی نظام ایستادہ کر دیا جائے جو کہ ریاستی عدالتی نظام کے پسند نہ آنے والے ہر فیصلہ کوچیلنج کر کے عوامی عدالت کی من چاہی مہر لگا کر اسے مسترد کرسکتا ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کو یہ منظور ہے تو معاشرہ میں عوامی عدالتی نظام کے قیام پر ایک اور بڑی الجھن پیدا ہورہی ہے اس کا حل بھی تلاش کر لیجئے۔

ہم زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے۔ اس وقت پاکستان کے افق پر تین بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں مسلم لیگ ، پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی یعنی دوسرے الفاظ میں تین عوامی سپریم کورٹس موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن طے کرے کہ اسے کون سی عوامی سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل قبول ہے۔ اور باقی دوکوکس کس عوامی سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل قبول ہے؟؟؟ ذرا غور فرمائیں آپ عوام کو عوامی عدالت نہیں بلکہ عوامی خانہ جنگی‘عوامی جنگل کا قانون‘ جسکی لاٹھی اس کی بھینس اور عوام کو باہم دست و گریباں ہونے کا خوفناک راستہ دکھارہے ہیں۔

ریاستی عدالتیں ججزرجٹر ر‘وکیل اور موکل وغیرہ نفوس پرمشتمل ہیں۔ پس عوامی عدالتوں کے قیام کیلئے ہمیں عوامی ججز‘ عوامی رجسٹرار ‘عوامی وکیل اور عوامی موکل وغیرہ جیسی شخصیات درکار ہیں جو کہ چوراہے میں عوامی فیصلہ کرسکیں لیکن پاکستانی عوام مشاہدہ کر رہی ہے کہ اس وقت مسلم لیگ کی عوامی عدالت میں ایسا کوئی عوامی عہد یدار نظر نہیں آرہا۔

نہ عوام جج ہے کہ فیصلہ کرنے کی حیثیت میں ہونہ عوام رجسٹرار ہے کہ جلسے جلوس انکی مرضی سے طے ہوں اور لیڈر عوام کی مرضی سے آئیں نہ عوام وکیل ہے کہ جلسوں میں عوام خود اپنا موقف پیش کریں نہ عواموکل ہے کہ ان کی بات کی جائے بلکہ حقیقت احوال یہ ہے کہ اس وقت لگائی گئی مسلم لیگ ن کی عوامی عدالت میں مسلم لیگ ن کے لیڈرہی جج ہیں جو فیصلے عوام کو سناتے ہیں اور عوام تسلیم کرتے ہیں، لیڈرہی رجسٹرار ہیں لیڈرہی وکیل ہیں اور لیڈرہی موکل ہیں۔

عوام کو صرف اکٹھا کیا جاتا ہے لیڈروں کی باتیں سننے‘ نعرے لگانے کیلئے ریاستی عدالتوں پر پریشر ڈالنے کیلئے۔ پاکستان کے تاریخی 70برس کی طرح اس مرتبہ بھی لفظ ”عوام“ کو سیاسی چال کے طور پر استعال کیا جارہا ہے۔ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے نام بے چارنے عوام کا اورکام سارے لیڈروں کے ‘میری مسلم لیگ ن سے گزارش ہے کہ اگریہ واقعی عوام کی عدالت ہے تو میں بھی عوام سے ہوں میرابھی ایک مقدمہ ہے آپ اسے بھی حل کروا دیں عوام کی عدالت میں ۔

۔۔اس طرح لاکھوں عوامی مقدمات کے ڈھیر لگ جائیں گے اور آپ ایک مقدمہ کی بھی سزاوجز انہیں دے سکیں گے۔ عوام کو بے وقوف بنانا چھوڑیں تو صرف ایک پریشر گروپ “ ہے ریاستی عدالتوں کو بلیک میل کر کے من مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے ہم پھر بھی ن لیگ کے اس فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں شاید ہماری ناقص سوچ اس عظیم الشان تصور کو سمجھنے سے عاری ہو۔

عوامی عدالت کا تصور انفرادیت یا اجتماعیت دوطبقوں میں تقسیم ہو کرعلیحدہ علیحدہ مختلف تشخصات کا تاثر پیدا کرتا ہے کیونکہ چور چوری کرنے سے پہلے چور نہیں ہوتا ڈاکو ڈکیتی کرنے سے قبل ڈاکو نہیں ہوتا اسی طرح تمام مجرم جرم کرنے سے قبل شریف شہری ہی ہوتے ہیں ضروری ہے کہ انہیں مخصوص جرائم سے منسلک کرنے کیلئے ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہو جو عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادیت و اجتماعیت کے خوف اور شرط سے پاک ہو کر ان پر مقررہ سزاو جزا نافذ کرے۔

قضاوقدر کے اس فلسفے میں انفرادیت واجتماعیت کی شرط لگانے ہی سے عوامی عدالت کا تاثر پیدا ہوسکتا ہے۔ اور اسے دوسرے معنوں میں بلیک میل کر کے جانبداری حمایت اور طرف داری پر مجبور کرنا کہا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں انفرادیت و اجتماعیت کی شرط کا مطلب ہے کہ اگر معاشرہ میں ایک فرد کوئی جرم کرتا ہے تو اسے اسی ریاستی عدالتی نظام کے تحت مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔

لیکن اگر وہ ایک فردایک گروہ ایک جماعت ایک پارٹی کی صورت اختیار کر جائے لوگوں کا انبوہ عظیم اکٹھا کر لے تو اسے ریاستی عدالت کے مقابل اپنی پارٹی کی عوامی عدالت لگانے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ اور ریاستی عدالت میں ہونے والے فیصلے کو وہ عوامی عدالت سے رد کر سکتا ہے۔ ان عوامی عدالتوں کے مطالبات ماننے کی بجائے ان میں سے کچھ عوامی سپریم کورٹ پر فائرنگ کر کے عوامی ججزد کو مار دیا گیا تھا۔

معلوم ہوا عوامی عدالت کا فیصلہ بھی اسی وقت قابل قبول ہو گا جبکہ عوام ن لیگ کی ہو۔ او رقطع نظر اس شرط کے پاکستان کی تمام پارٹیوں کے لوگ مل کر ممتاز قادری کے جنازے کی طرح پاکستان کا سب سے بڑا اجتماع ہی کیوں نہ قائم کر لیں انکی عوامی عدالت کا فیصلہ نا قابل قبول ہے۔ پس انکی عوامی عدالت کا فلسفہ ن لیگ سے شروع ہوتا اور ن لیگ ہی پر ختم ہوجاتا ہے، دراصل ہم سیاسی مفادات کی دیوی کے پجاری ہیں۔

ہمارے لیڈروں کی اعلی صفات محض اتفاقی اور حادثاتی سی ہو کر رہ گئی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کا مفاد جس سمت میں بھلا اور خوشنمادکھتا ہے اسی سمت کا بہانہ اور آڑ استعمال کر کے اپنے مطلوبہ مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا عوامی عدالت کا تصور پاکستانی آئین اور پاکستانی دستور میں موجود ہے؟ اس کی تشریح کی جائے اگر تصور موجود ہے تو قانون سازی کر کے اس عوامی عدالت کو قانونی تحفظ بخشا جائے۔ اور اگر نہیں (یقینا نہیں) تو متذکرہ بالا ماورائے عدالت اور ماروائے قانون عوال پر سزاوٴں اور پابندیوں کی طرح اس عوامی عدالت والے مفروضے کو ماورائے عدالت جرم قرار دے کر اس پر بھی سزا اور پابندی لگائی جائے اور عوام کی ذہنی سطح کو آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan ka adalti nizaam aur Muslim League (N) ka manshoor is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 May 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.