پاکستانی نظام تعلیم

تعلیم انسانی اقدار کو فروخ دینے اور انسان میں شعور لانے کا اہم ذریعہ ہے۔ وہ شعور خواہ سیاسی ہے یا معاشی، وہ شعور خواہ کاروباری ہے یا دنیاوی اسی طرح وہ شعور دینی و مذہبی ہو ہر شعور کی بنیاد مضبوط علم و تعلیم کا نظام ہے

Hassan Bin Sajid حسان بن ساجد منگل 3 دسمبر 2019

Pakistani nizam e taleem
کسی بھی مہذب و ترقی یافتہ ملک کی بنیادی جڑ اسکا نظام تعلیم اور نصاب ہوا کرتا ہے۔ معاشرہ میں ہر قسم کی تقسیم اس معاشرے کی بربادی کا سامان بنتی ہے۔ تعلیم وہ نور ہے جو انسان کے تن اور من دونوں کو روشن کرتا ہے۔ تعلیم انسانی اقدار کو فروخ دینے اور انسان میں شعور لانے کا اہم ذریعہ ہے۔ وہ شعور خواہ سیاسی ہے یا معاشی، وہ شعور خواہ کاروباری ہے یا دنیاوی اسی طرح وہ شعور دینی و مذہبی ہو ہر شعور کی بنیاد مضبوط علم و تعلیم کا نظام ہے۔

اسلام نے بذات خود علم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض کر رکھا ہے۔ اللہ رب العزت نے خود قرآن عطا کر کہ تعلیم کی بنیاد رکھی تاکہ لوگ شعور حاصل کر سکیں۔
1947 سے آج تک پاکستان کے مسائل میں سے ایک مسئلہ شرح خواندگی اور تعلیم رہی۔اس ملک کے ڈوبنے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی نسلوں کو علم سے دور رکھا گیا اور سیاسی لیڈروں نے عوام کو سیاسی ڈراموں میں الجھاے رکھا جس وجہ سے لوگوں میں شعور بیدار نا ہوسکا۔

(جاری ہے)

ہم آج بھی ہم ووٹ ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں خاندان،کھمبوں، سڑکوں، گلیوں اور بریانی کی پلیٹوں پر دیتے ہیں اور پھر پانچ سال مصیبت کے مارے پھرتے ہیں۔
 1947 تقسیم پاک و ہند کے وقت پاکستان کی شرح خواندگی 11 فیصد تھی جبکہ آج 57 فیصد ہے۔ 1947 سے لے کر آج دن تک تعلیم پر حکومتی 22 پالیسیز بنیں مگر کسی ایک پر بھی صحیح عمل درآمد نا ہوسکا۔ اسی طرح اگر 1947 سے ہی اگر سالانہ شرح تعلیم میں صرف ایک فیصد اضافہ کیا جاتا تو آج شرح تعلیم 83 فیصد تک ہوتا مگر افسوس! قوم کو گمراہ کیا گیا اور علم سے دور رکھا گیا تاکہ لوگوں میں شعور بیدار نا ہوجائے۔

اسی طرح پاکستان میں گزشتہ 10 سالوں میں تعلیمی اخراجات و فیسوں میں 150 فیصد تک اضافہ کیا گیا، بظاہر یہ پالیسیز نوجوان و ملک دشمن ہیں۔ اسی حکومت کی بات کروں تو HEC کی اسکالر شپ پروگرام و یونیورسٹی فنڈز کو کم کیا گیا ہے۔
 دوسری جانب اقوام متحدہ کے چارٹر کی بات کروں تو اس کے مطابق کسی بھی ملک کو اپنے GDP کا کم از کم 4 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا چاہئیے مگر افسوس پاکستان 1 یا 2 فیصد خرچ کرنے سے زیادہ خرچ نہیں کرتا۔

2018_2019 کی پالیسی کے مطابق پاکستان اپنے GDP کا 2.4 فیصد تعلیم پر خرچ کرے گا۔گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت کی پالیسیز میں فی الحال کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ بے شک اس ملک میں اسکول، کالجز و یونیورسٹیز بننی چاہیے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حکومتی پالیسی ایک ہو اور تعلیم کو اہمیت دی جائے۔
اگر ملک میں نظام تعلیم کی بات کروں تو مجھے نظام تعلیم بھی چار بنیادی حصوں میں تقسیم نظر آیا ہے جس میں ایک O & A لیول کی تعلیم ہے تو دوسری Private اسکول سسٹم کا نظام نظر آتا ہے اسی طرح گورنمنٹ اسکول سسٹم کے ساتھ چوتھا نظام تعلیم مدرسہ نظام تعلیم نظر آتا ہے۔

گورنمنٹ اسکول سسٹم میں پھر فیڈرل بورڈ اور چاروں صوبوں کا نظام تعلیم و نصاب نظر آتا ہے۔اسی طرح مدرسہ سسٹم میں بھی ہر مکتبہ فکر کا اپنا نصاب نظر آتا ہے۔ ہر نظام کا اپنا نصاب نظر آتا ہے اور ویسے ہی ہر نصاب و نظام کی فیس و قدر و منزلت میں بھی فرق نظر آتا ہے۔ جیسے میں گزشتہ کالم میں لکھ چکا کہ اس ملک میں '' ایک نہیں، دو پاکستان'' ہیں۔ امیر و غریب کا الگ الگ ملک ہے۔

امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہوتا جارہا ہے۔ اس ملک کو ایک نصاب اور ایک نظام تعلیم کی ضرورت ہے تاکہ لوگ شعور پا سکیں اور حق کو حق اور باطل کو باطل مانیں۔ منسٹری آف ایجوکیشن کو ضرورت ہے کہ ایسا نظام مرتب کریں جس میں اسکول سسٹم بھی ایک ہو اور نصاب بھی ایک ہی ہو۔ گزشتہ دنوں ایک طلبہ تنظیم لاہور میں طلبہ سیاست کی بحالی کے لیے میدان میں اتری تھی۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تعلیم کے بغیر سیاست میں جانا کیسا ہے؟ میری رائے میں طلبہ کو صرف علم کا مشتاق رہنا چاہئیے۔ آج مجھے استاد و شاگرد کا تعلق بھی فقط پیسے کمائی والا نظر آتا ہے۔ پہلے لفظ استعمال ہوتا تھا ''تعلیم و تربیت'' دونوں کو ہمیشہ ساتھ جوڑ کر بولا جاتا ہے۔ آج فقط بچوں کو کتابی کیڑا بنا دیا جاتا ہے اور لفظ تربیت کو حذف کرلیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ بھی نظام تعلیم کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں تعلیم دیں وہیں تربیت کا خاص خیال رکھیں۔ اخلاق، کردار، مزاج و وسعت قلبی کی تربیت دی جائے تاکہ معاشرہ وحدت کی جانب جائے نا کہ نفرت و انتشار کی جانب جائے۔ حکومت وقت کو اپنی توجہ تعلیم اور صحت پر دینی ہوگی، ملک میں ایک نصاب رائج کرنا ہوگا کیونکہ طلبہ اس ملک کا مستقبل ہیں اور انہی نے ملکی بھاگ ڈور سنبھالنی۔

گزشتہ حکومتوں نے نوجوان نسل کو تعلیم سے دور رکھا تاکہ شعور بیدار نا ہو مگر اب حالت یکسر مختلف ہیں عوام میں شعور ہے اور میں وہ وقت دور نہیں دیکھتا جب پڑھی لکھی اور قابل قیادت اس ملک پر راج کرے گی مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ نظام تعلیم و ایک نصاب کو رائج کیا جائے اور شرح خواندگی کو بڑھایا جائے۔
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب 
ہو میرا کام غریبوں سے محبت کرنا 
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا 
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
 نیک جو راہ ہے اسی رہ پہ چلانا مجھ کو 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistani nizam e taleem is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 December 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.