
”قوانین کی چھتری تلے “
ایسے فیصلے جن کا عام شہری سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔ ن دنوں ایسے معاملات پر بھی فیصلے سامنے آگے جو طویل عرصہ سے لٹکے ہوئے تھے۔ ماضی میں متنازعہ یا بہت زیادہ حساس نوعیت کے مقدمات عموماًلٹکے رہتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر آرہاہے
سید بدر سعید
جمعرات 4 فروری 2016

(جاری ہے)
اس فیصلے پر شاہ زین بگٹی نے بھی فیصلے کو چیلنج کرنے کا کہا ہے ۔
اسی طرح ایک او ر حالیہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے شکار کی اجازت دے دی ہے۔ یاد رہے کہ یہ بھی متنازعہ کیس تھا۔تلور کے شکار کے لیے غیر ملکی شہزادے پاکستان آتے ہیں۔ دوسری جانب جنگلی حیات کی زندگی محفوظ بنانے کے خواہش مند ایسے شکار کے خلاف ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ تلور کی نسل کو خطرہ ہے لہٰذا اسے بچانے کیلئے اس کے شکار پر پابندی لگائی جاتی تھی۔یہ دونوں معاملات طویل عرصہ سے زیر بحث تھے اور اس پر عوامی رائے عامہ بھی مضبوط ہو چکی تھی۔ایک طرف عدلیہ نے ماضی کے برعکس معاملات لٹکانے کی بجائے فیصلے سنانے شروع کر دئیے ہیں تو یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بظاہر یہ فیصلے بااثر افراد کے حق میں گے ہیں۔بگٹی قتل کیس میں پرویز مشرف سمیت اہم شخصیات بچ گئی ہیں تو تلور کے شکارکے کیس میں عرب شہزادوں اور حکومت کی سنی گئی ہے۔ دوسری جانب صوبائی اور مرکزی حکومتیں بھی اکثریتی بنیاد پر اہم بل منظور کر رہی ہیں۔اس سلسلے میں سندھ کی حکومتی جماعت نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود مقدمات واپس لینے اورپراسیکیوٹر تبدیل کرنے کا اختیار سیکرٹری سے پراسیکیوٹر جنرل کو دیدیا ہے۔ اس بل کے مطابق عدالتی رضا مندی سے سندھ حکومت کسی کے خلاف بھی کسی بھی جرم کے تحت مقدمہ واپس لے سکتی ہے۔اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ اس بل کا مقصد زیادہ تر سیاسی مفادات کی حفاظت ہے اور بعض اہم افراد کو بچانے کی کوشش ہے ۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ ن نے بھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے شدید احتجاج کے باوجود ٹیکس ایمنسٹی بل منظور کر الیا۔ اسی طرح پی آئی اے کو کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی میں بدلنے کا بل بھی منظور کر لیا گیا ۔اس موقع پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے یہاں تک کہا ”نواز شریف ! آپ کو اٹک قلعہ کے آنسووٴں، ہتھکڑی کی قسم، چوروں کو بچانے کے لیے بل مت لاوٴ۔“ یاد رہے کہ پی آئی اے کو لمیٹڈ کمپنی میں بدلنے کا بل بھی ایجنڈے سے ہٹ کر پشن کیا گیا۔ اس موقت پر اپوزیشن نے احتجاج کے ساتھ ساتھ واک آوٹ بھی کیا لیکن حکومت نے اس موقع کے فائدہ اٹھاتے ہوئے بل منظور کر لیے۔
اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ چند روز سے اندرون خانہ تیزی آگئی ہے اور اہم حلقے اپنے مفادات کے لیے قانون کا سہارا لیتے ہوئے جلد از جلد فیصلے کر رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی سے لیے کر قومی اسمبلی تک سیاسی جماعتوں کے فیصلے آئینی طریقہ کار کے ہی تابع ہیں۔ لیکن ان کے مقاصد عوام کے لیے نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیاسی قیادت اب آئینی اور قانونی چھتری تلے اپنے مفادات اور تحفظ کے لیے متحرک ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح انہیں قانونی طور پر مجرم بھی نہیں گردانا جائے گا اور وہ اپنی ”وادات“ میں بھی کامیاب رہیں گے۔ ذرائع بھی کہہ رہے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں میں مزید ایسے اقدامات متوقع ہیں جو آئینی طور پر عام شہری کے لیے تو کسی صورت فائدہ مند نہ ہوں گے لیکن مخصوص طبقے کے مفادات کے تحفظ فراہم کریں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Qawaneen Ki chatri Tale is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 February 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.