ٹرمپ کی نیتن یاہوپرنوازشیں․․․․․․․

امریکہ کا دوہرا معیار اور عالمی امن کے تقاضے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہود وہنود کی مسلمانوں کو مشتعل کرکے مشرق وسطیٰ کے حالات مزید خراب کرنے کی گھناؤنی سازش

پیر 25 دسمبر 2017

Trump ki Niyatn yaho pr Nawazishy
محبوب احمد :
صہیونی ریاست کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے صرف مسئلہ فلسطین ہنوز حل طلب ہے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں بدامنی کی لہر مزید پھیل رہی ہے۔ صہیونیوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر فلسطین پر قبضے کا پروگرام ترتیب دیا تھا، عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کرگئی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15 مئی 1948ء کو ہوا، جب اسرائیل ایک الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا، اس وقت اس کا کل رقبہ صرف 5 ہزار مربع میل اور اس کی حدود میں کم وبیش 5 لاکھ یہودی آباد تھے لیکن آج اسرائیل کا رقبہ 34 ہزار سے مربع میل اور آبادی 57 لاکھ سے زائد ہے ۔

اسرائل نے 16 یہودی بستیوں کو 1948ء میں زیر تسلط آنے والے علاقوں کے ساتھ ملا دیا تھا تاکہ صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم پورے ہوسکیں۔

(جاری ہے)

آبادی کے تناسب سے غرب اردن میں آباد کار یہودی کل آبادی کا 16 فیصد ہیں جبکہ عملی طور پر وہ پورے غرب اردن کے 42 فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں فلسطینیوں کی ہتھیائی گئی اراضی پر 26 یہودی بستیوں میں لاکھوں صہیونی رہائش پذیر ہیں، یہ تعداد غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کا 54.6 فیصد بنتی ہے، البریح اور رملہ کے علاقہ میں 24یہودی رہائشی منصوبوں میں ہزاروں یہودی رہائش پذیر ہیں، یہودی نے مسجد اقصیٰ سے150 میٹر کے فاصلے پر ”معالیہ از یتیم“ کے نام سے ایک کالونی بھی تعمیر کی ہے جس میں 132 رہائشی اپارٹمنٹس ہیں اسرائیل کی معیشت کا پہیہ امریکی امداد سے ہی رواں دواں ہے اور اسرائیل جو اسلحہ پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک بن چکا ہے اس کا وجود بھی دراصل انگریزوں کی ہی مرہون منت ہے۔

بیت المقدس کے حوالے سے امریکہ کاحلیہ فیصلہ فلسطین پر صہیونی قبضے کو عملی قانونی جامہ پہنانے کی سازش ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے ، اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے دوریاستی حل کی امید کو تباہ کردیا ہے۔ امریکی صدر کی نیتن یاہو پر نوازشیں اور اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات ساری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ سے بڑھتی ہوئی قربتوں کے باوجود سعودی عرب نے اس فیصلے کو ”بلا جواز اور غیر ذمہ دارانہ“ قرارد یا ہے۔

یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی نے بھی اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ مغرب خاص طور پر امریکہ کا رویہ فلسطینیوں کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے جس سے انصاف پسند دنیا بے چینی کا شکار ہے کیونکہ آج امریکہ کے تمام فیصلہ ساز ادارے یہودی لابی ہی کے ماتحت ہیں اور پینٹا گون پر بھی یہودی ہی قابض ہیں۔ اسرائیلی حکومت غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سینکڑوں منصوبے بناچکی ہے جن پر مکمل عمل درآمد ہو چکا ہے۔

فلسطین مرد مظالم کا شکار ہیں وہیں دوسری جانب بے گناہ خواتین اور نو عمر بچوں اور بچیوں سے اسرائیلی جیلیں بھری پڑی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اسرائیلی جیلوں میں15 ہزار کے لگ بھگ بے گناہ مسلمان خواتین پابند سلاسل ہیں جن میں نو عمر بچیاں اور معمر خواتین کو گرفتار کرکے ان کی رہائی کے لئے بھاری جرمانے وصول کرنا معمول بن چکا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں مسلمان خواتین پر تشدد کے ساتھ بڑا مسئلہ صنفی امتیاز کا رویہ کا بھی ہے، باپردہ مسلم خواتین کو مرد قیدیوں کے ساتھ ایک ہی بیرک میں رکھ کر انسانیت کی توہین کی جارہی ہے۔

تسلط وطاقت کے فلسفہ پر قائم پر ناجائز ریاسے اسرائیل کے ظلم وجور اور سفاکیت وبربریت کا سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوتو جارہا ہے۔ عراق پر امریکی حملے، افغانستان کے خلاف نیٹو کاروائی ، بوسنیا، چیچینا، میانمار، فلسطین اور کشمیر جیسے معاملات ومظالم پر اقوام متحدہ سے کوئی امید رکھنا یا شکوہ کرنا عبث وبیکارہی ہے کیونکہ آج تک اقوام متحدہ اپنی ہی قرار دادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی۔

اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم او آئی سی کے حالیہ اجلاس میں ٹرمپ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کے ”مقبوضہ دارالحکومت “ کے طور پر تسلیم کیا جائے، اگر بظاہر دیکھا جائے تو امریکہ مشرق وسطیٰ میں امن بات چیت میں اپنے کردار سے پیچھا ہٹتا دیکھائی دے رہا ہے اور اپنے انہی اقدامات کی وجہ سے امریکہ امن بات چیت میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کے لئے اب مکمل طور پر نااہل ہوگیا ہے۔

اسرائیل حقیقت میں ایک دہشت گرد ریاست ہے، لہٰذا امریکہ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کی کوئی حیثیت نہیں۔ یاد رہے کہ 57 رکن ممالک کی تنظیم او آئی سی کی صدارت اس وقت ترکی کے پاس ہے اور ترک صدر رجب طیب اردگان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف پوری دنیا میں اپنی آواز اٹھا چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہتری کی جانب گامزن تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کے بارے میں فیصلے کے بعد ترکی نے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے انقرا میں امریکی سفارت خانے کے سامنے سب سے پہلے عوامی احتجاج کیا۔

امریکہ پر اب زود دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے کو واپس لے، تاہم عرب ممالک کی جانب سے اس حوالے سے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Trump ki Niyatn yaho pr Nawazishy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 December 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.