
استاد کا مرتبہ
استاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ استاد کے حقوق کا انکار ناشکری سے بھی زیادہ بُرا ہے۔ناشکری یہ کہ علم سیکھ جانے کے باوجود سکھانے والے کی تربیت اور محنت سے انکار کرنا اور یہ کہنا کہ استاد نے مجھے ابتداء میں تھوڑا بتایا باقی جو بھی سیکھا وہ خود سے سیکھا ہے
عائشہ گلزار ملک ہفتہ 22 فروری 2020

بات کچھ یوں تھی کہ انکی استاد جو کالج میں داخل ہوئیں ان کی گاڑی کی حالت بہت زیادہ خستہ تھی۔وہ گاڑی کو پارک کرتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ رہی تھی۔ جبکہ وہ دونوں لڑکیاں ان کا مذاق بنا رہی تھی کہ ان کی اوقات نہیں ہیں، اچھی گاڑی میں بیٹھنے کی ان سے کہیں زیادہ اچھی گاڑیاں ہمارے گھر میں موجود ہے۔
(جاری ہے)
ہم ان کو دو سال سے لگاتار دیکھ رہی ہیں اس پھٹیچر گاڑی میں آتے ہوئے۔
اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے اپنی استاد کا مذاق بناتے ہوئے اپنی کلاس میں چلی گئیں۔میں ان کو جواب نہ دے سکی مگر ان کی اس باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہمارے استادوں کا معاشرے میں آخر مقام کیا ہے میں ان لڑکیوں کی سوچ پر صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ ہو سکتا ہے وہ استاد خستہ حالت گاڑی میں آتی ہے اور ان سے کہیں دگنی گاڑیاں ہوگی تم لوگوں کے پاس مگر جتنی تعلیم یافتہ وہ ہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے ہی کالج میں تعلیم حاصل کرنے تم لوگ ابھی آ رہی ہو اور کئی سال لگ جائیں گے ۔اس استاد جتنی تعلیم حاصل کرنے میں اور جن چیزوں کا تم حوالہ دے کر ان کا مذاق بنا رہی ہو وہ چیزیں تمہیں ابھی اسی وقت ویسا مقام نہیں دلاسکتی جو مقام اس استاد کا ہے۔
بچپن سے ہم نے تو یہی سیکھا ہے کہ استاد کی عزت ضروری ہے کیونکہ استاد کی بدولت ہم پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں۔اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا کا ارشاد ہے کہ علم دولت سے بہتر ہے اس لئے کہ دولت فرعون اور قارون کو ملتی ہے۔اور علم پیغمبروں کو ملتا ہے۔
استاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ استاد کے حقوق کا انکار ناشکری سے بھی زیادہ بُرا ہے۔ناشکری یہ کہ علم سیکھ جانے کے باوجود سکھانے والے کی تربیت اور محنت سے انکار کرنا اور یہ کہنا کہ استاد نے مجھے ابتداء میں تھوڑا بتایا باقی جو بھی سیکھا وہ خود سے سیکھا ہے تو وہ شخص استاد کے دیے ہوئے علم سے انکار کرتا ہے اور نہ شکری احسان کا انکار ہے۔ حضرت محمد صل وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے تھوڑے احسان کا شکر ادا نہ کیا اس نے زیادہ احسان کا شکر ادا نہ کیا۔استاد کا احترام شاگردوں پر واجب ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں۔جس نے مجھے ایک حرف سکھایا تو اس نے مجھے غلام بنا لیا پھر اس کی مرضی کے چاہے بیچ دے اور اگر چاہے تو آزاد کردے۔
میرا اس بارے میں لکھنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ اپنے استاد سے ادب و احترام سے پیش آئیں۔کیونکہ والدین کے بعد اگر کوئی ہماری تربیت کو بہتر بناتا ہے تو وہ ہمارے استاد ہوتے ہیں۔اور علم حاصل کرنا یہی ہوتا ہے کہ ہم ادب و احترام سیکھیں اور معاشرے میں ایک بہتر انسان ہونے کا حق ادا کرے اور یہ ہم تب ہی کرسکتے ہیں جب ہم سکھانے والے کی اہمیت کو سمجھیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
ustaad ka martaba is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 February 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.