
وادی سندھ کی تہذیب
ھڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات۔۔۔۔۔ ہڑپہ کے کنھڈرات کی کھدائی پہلی بار 1921 سے 1925 تک ” دیا رام ساہنی“ کی زیر نگرانی ہوئی
منگل 23 ستمبر 2014

یہ حقیقت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہوتا ہے لیکن تہذیبوں کے عروج کی باقیات ، ان کے زوال میں کہیں باعث فخر سمجھی جاتی ہیں تو کہیں باعث عبرت!
ہڑپہ اور موہنجوداڑو وادیء سندھ کی تہذیب کے دو بڑے نام مانے جاتے ہیں جن پر گزر جاتے وقت کے ساتھ ماضی کی دھول جمتی جا رہی ہے۔ کبھی کوئی آر کیا لوجسٹ یا تاریخ سے خاص شفف رکھنے والے لوگ ان پرسے گرد صاف کرتے ہیں تو اس تہذیب کا عکس ماضی کے آئینے میں جگمگا اُٹھتا ہے آج سے تقریباََ 5000 سال قبل یہ تہذیب دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاوٴں کی قدیم گزرگا ہوں پر پھلتی نظر آتی ہے۔ زمانہ کے لحاظ سے یہ تہذیب مصری تہذیب کے ہم عصر دکھائی دیتی ہے اپنے وقت کی بہترین تہذیبیں اور شہر آج کھنڈرات کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں اور یہاں کی زندگی چیخ چیخ کر اپنے عروج وزوال کی داستان سناتی نظر آتی ہے۔
(جاری ہے)
شاید کسی شاعر نے زندگی کے اسی مدد جزر کے بارے میں کہا ہے کہ
تیرا ہی شاہکار ہوں، تیرا ہی مارا ہوا ہوں
”میں نے ہڑپہ کی بہت ساری کھدائی کی لیکن ریلوے کنٹریکڑز نے وہاں کی زمین بالکل ہموار کر دی گی تھی جس کے باعث میں وہاں کنڈرات کا بہت تھوڑا حصہ محفوظ کر سکا“
ایم ،ایس، واٹس اسی خطہ ء زمین کو وادی سندھ کا پر اسرار حصہ بھی لکھتے ہیں۔
ہڑپہ کے کنڈرات کی کھدائی پہلی بار 1921 سے 1925 تک ”دیا رام ساہنی“ کی زیرنگرانی ہوئی اسکے بعد 1926-1935 تک ”مسٹر مادھو ساریپ“ نے کام کیا، پھر 1937 میں ” مسٹر کے ایم شاستری“ کی زیرنگرانی کھدائی کاکام ہوا 1944-46 تک ”آر، ای ،ایم وہیلر“ نے یہاں ایک خندق بھی دریافت کرلی 1947 میں پاکستان بننے کے بعد ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے 1966 میں اس سائیٹ کے بارے میں کچھ مفید معلومات بھی دیں۔1986 میں امریکن آرکیا لوجی مشن نے شعبہ آرکیا لوجی اور موزیم، حکومت پاکستان کے تعاون سے ڈاکٹر جارج ڈیلز کے زیر نگرانی یہاں ریسرچ کا کام شروع کی جسکے نتیجے میں ہڑپہ کا ایک بڑا حصہ عیاں ہوا 1926 میں اسی جگہ پر ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی بنایا گیا جہاں کھدائی سے نکلنے والی باقیات کو رکھا گیا۔ 1947 میں اس عجائب گھر کو موجودہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا جہاں بہت خوبصورتی سے چیزوں کو ترتیب سے رکھا گیا ہے اور باقاعدہ طور پر معلومات بھی آویزاں کی گئی ہیں ہڑپہ کے کھنڈرات سے نکلنے والے یہ قیمتی نواد رات نہ صرف ہڑپہ عجائب گھر کی زینت بنے بلکہ نیشنل میوزیم دہلی میں بھی ہڑپہ کی تہذیب و ثقافت پرایک گیلری موجود ہے جس میں کانسی کا مجسمہ خوبصورت ترین ، زیوارت اور مہریں وغیرہ ہڑپہ کے ان لوگوں کی تہذیب و ثقافت کا خیالات مستعار لئے ہوئے ہے دوران کھدائی وہاں سے پتھر کے بنے ہوئے دستی کلہاڑے، بلیڈ اور چاقو انسان کے ابتدائی مراحل کو ظاہر کرتے ہیں۔یہاں کے لوگ سنگ تراشی اور مجسمہ سازی میں ماہر تھے اور یہاں موجود گھر اور باقی عمارت پکی اینٹوں سے بنائے گے تھے کانسی اور تابنے کے ظروف سازی کا منہ بولتا ثبوت ہیں یہاں سے ملنے والے پتھر کے باٹوں سے لیکر زیورات تک ان لوگوں کی کھلی سوچ کے عکاس ہیں۔
ان کھنڈارت کا بلند ترین ٹیلہ جو یہاں کی کھدائی کے بعد سامنے آیا ہے اس کو ٹیلہ AB کانام دیا گیا، یہ ٹیلہ تقریباََ 450 میٹر شمال سے جنوب کی جانب اور 233 میٹر مشرق سے مغرب کی جانب پھیلا ہوا ہے مٹی کی اینٹوں سے بھی ہوئی ایک مضبوط دیوار اس ٹیلے کو محصور کرتی نظر آتی ہے۔ اس ٹیلہ کی کھدائی کا زیادہ کام مادھو سریپ واٹس سے 1926 سے 1934 کے درمیان کیا تھا، اور یہاں سے نکلنے والے نوادارت زیادہ تر گھروں کی باقیات ، نالیوں کا مکمل نظام وغیرہ ہی تھا۔
یہاں پایا جانے والا قبرستان ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے جسکا دور 2500 قبل مسیح سے 1800 قبل میسح تک پھیلا ہو اہے۔ یہ لوگ اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے۔ اس قبرستان کا ایک حصہ آریاں نسل کے لوگوں کی تدفین کے لئے مخصوص تھا یہ وہ لوگ تھے جو ہڑپہ کے اصل لوگوں کی تباہی کا سبب بنے یہ اپنے مردوں کو شہر سے دور ویران جگہوں پر چھوڑ دیتے تھے جب جانور ان کا گوشت نوچ لیتے تو انکی باقی مانندہ ہڈیاں یہ پختہ بڑے مٹکے نما برتنوں میں ڈال ک دفن کر دیتے ایک اور روایت کے مطابق یہ لوگ اپنے مردوں کو جب بڑے ظروف میں دفن کررہے ہوتے تو ان کا کچھ کھانا بھی ساتھ دفن کرتے تھے۔
انہیں کھنڈرات سے ہڑپہ کے لوگوں کے منظم اور باشعور ہونے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اس شہر کے گردا گردینی ایک موٹی دیوار (جس کی موٹائی 45 فٹ ہے جو اوپر چڑھتے ہوئے پتلی ہوتی جاتی ہے) کی باقیات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہاں سے ملنے والی باقیات میں یہاں کے لوگوں کارہن سہن ظاہر ہوتا ہے ان کے پکے گھر اور گھروں کا طرز تعمیر ، خوبصورت اناج گھر، پکی نالیاں ان کی باقاعدہ اور باشعور طرز زندگی کا عکاس ہیں۔
ہڑپہ کی تہذیب پر زوال کیوں آیا؟ اس کیوں؟ کاجواب شائد اب تک پوری طرح سے کوئی نہیں جان پایا لیکن مئورفین کہتے ہیں شائد یہاں کے لوگوں کو جوڑراعت اور تجارت سے منسلک تھے جنگجو آریان نے تباہ کر دیا شائد یہ لوگ کسی وبائی بیماری سے مارے گئے، یا شائد دریا نے رخ بدل کر یہاں کے تجارت پیشہ لوگوں سے بے وفائی کر لی۔
ماضی کا یہ خوبصورت شہر ہزار ہابرس زمین میں دفن رہا اور صدیوں ان پرکوئی کام نہ ہو سکا، لیکن ہڑپہ کے بلند دبالا ٹیلے محقیقین کو سیاحوں کو اور ماہرین آثار قدیمہ کو اپنا راز دان بنانے کو تیار ہیں بس انکی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
مزید عنوان
Waadi Sindh Ki Tehzeeb is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 September 2014 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.