زیریں سندھ میں دھان کی بوائی پر پابندی

حکومت سندھ نے ضلع بدین میں دھان کی بوائی پر پابندی عائد کر دی ہے۔ صوبے کے بالائی اور زیریں اضلاع یعنی جیکب آباد، قمبر، شہداد کوٹ، کندھ کوٹ، کشمور، لاڑکانہ، ٹھٹھہ، سجاول اور بدین اضلاع میں دھان کی بڑے پیمانے پر کاشت ہوتی ہے۔ اس وقت بھی صوبے میں دھان کی فصل بوئی جاچکی ہے

منگل 31 مئی 2016

Zareen Sindh main Dhaan Ki Buwai Per Pabandi
الطاف مجاہد:
حکومت سندھ نے ضلع بدین میں دھان کی بوائی پر پابندی عائد کر دی ہے۔ صوبے کے بالائی اور زیریں اضلاع یعنی جیکب آباد، قمبر، شہداد کوٹ، کندھ کوٹ، کشمور، لاڑکانہ، ٹھٹھہ، سجاول اور بدین اضلاع میں دھان کی بڑے پیمانے پر کاشت ہوتی ہے۔ اس وقت بھی صوبے میں دھان کی فصل بوئی جاچکی ہے تو حکومت نے پابندی کا اعلان کیا ہے جس سے کاشت کاروں کو کروڑوں کے ضلع بدین میں خسارے کا خدشہ ہے۔

البتہ نہروں کے آخری سرے کے کسانوں کوا س فیصلے پر خوشی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ تازہ اقدام کے بعد ٹیل تک پانی پہنچے گا جس سے ہماری معاشی بدحالی ختم ہو گی۔ اس فیصلے سے ہٹ کر دیکھیں تو صوبے میں محکمہ آب پاشی کے خلاف چھوٹے اور بڑے شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ وجوہات دو ہیں ایک طرف تو عمل ہے جو اپنے مسائل جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف محکمے کے حکام ہیں جن کی ناقص پالیسیوں کے باعث نہروں کے آخری سرے تک پانی نہیں پہنچ رہا جو ابتدائی سرے یعنی مڈھ پر چوری کر لیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

کپاس کی بوائی متاثر ہو رہی ہے۔ گندم کی فصل بمپر ہوئی تھی لیکن سرکاری قیمت 11 سو روپے فی 40 کلو گرام پر محکمہ خوراک کے مراکز میں خریداری کا بندوبست نہ تھا۔ کسانوں کو باردانہ کے حصول میں اعلیٰ افسران اور سیاست دانوں کی سفارش درکار تھی۔ جو بندوبست کر سکے ان کی گندم بک گئی جو نہ کر سکے وہ محروم رہے۔ اس سے قبل گنے کے آبادکاروں کا یہی مسئلہ تھا ہ انہیں سرکاری نرخ نہیں مل پائے۔

مل مالکان کو حکومت آمادہ نہ کر سکی۔ شوگر ملوں میں کرشنگ تاخیر سے شروع ہوئی دھان کی فصل پر بھی آبادکار کم قیمت کا رونا روتے رہے۔ یہ آج کا سندھ ہے جس میں کاشت کاروں کو پریشانیوں کا سامنا ہے۔ صوبے بھر کی 70 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے لیکن دوسروں کو اناج ، کپاس ، خوراک اور پھل مہیا کرنے والے خود جائز ضرورتوں کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہیں۔

یہ آج زراعت ، خوراک اور آب پاشی کی وزارتیں محض کاغذات میں ترقی کا راگ الاپ رہی ہیں۔
سندھ میں سیاسی تبدیلی کے خواہش مند بھی تسلیم کرتے ہیں ک عام آدمی اپنی مشکلات کے باعث اس فرسودہ نظام کا حصہ ہے جس میں وڈیرے ،رئیس، زمیندار اور بھوتا ر کامیاب ہوتے ہیں۔ مصنوعی قیادت مسلط کی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے نتیجے میں صوبے کے باشندوں کو ریلیف نہیں ملتا۔

صوبے میں حکمران پی پی کو سندھ اسمبلی میں واضح اور قطعی اکثریت میسر ہے۔ قانون سازی میں اسے کوئی مشکل پیدا نہیں آتی، اسمبلی میں اپوزیشن بھی کم وبیش 74 ارکان پر مشتمل ہے اور ایوان کی مجموعی نشستیں 168 ہیں لیکن متحدہ کی (ن) لیگ، فنکشنل اور تحریک انصاف سے نہیں بنتی۔ منتشر حزب اختلاف حکومت پر کتنا دباو ڈال سکتا ہے؟ یہ محسوس کا جا سکتا ہے۔

یہی سبب ہے کہ پیرپگارا کی زیر قیادت قائم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کئی کامیاب جلسے کرنے کے باوجود سندھ اسمبلی میں متاثر کن کار کردگی پیش نہیں کر سکا حالانکہ اس نے اسپیکر سراج درانی اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد پیش کرنے کا بھی اعلان کیا تھا مگر پھر وہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا اور اب ورکرز کنونشنز یا ریلیوں کا سلسلہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ماضی میں فنکشنل لیگ کو پی پی کا سیاسی متبادل تصور کیا جاتا تھا لیکن محروم پیرپگارا کے بعدیہ جماعت اس فعالیت کا مظاہرہ نہیں کر پارہی جو شاہ مردان شاہ ثانی کے باعث اسے میسر تھا۔ آج کل یہ سانگھڑتک محدود ہے جہاں پہلی مرتبہ ضلع چیئرمین کا انتخاب بھی یہ نہیں جیت پائے گی حالانکہ 2005 میں میرپور خاص، عمر کوٹ ، سانگھڑ، مٹیاری، ٹنڈوالہیار اور خیر پور یعنی 6 اضلاع کے ضلعی ناظم پیرپگارہ مرحوم کے نامزد کردہ تھے۔

سندھی قوم پرست بھی انتخابی سیاست میں کامیابی کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور وہ یہ کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے الحاق یا اتحاد کر کے ایوانوں تک سعی کی جائے۔ جی ڈی اے میں رسول بخش پلیجو کی قومی عوامی تحریک اور اس کے لیڈر ایاز لطیف پلیجو فعال ہیں۔ابتدائی ایام میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے جلال محمود بھیاس سیاست کا حصہ تھے۔

لیکن آج کل وہ دور ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تحفظات دور ہوں تو پھر ساتھ چلنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ سندھ نیشنل پارٹی کے اشرف نوناری خود قوم پرستوں کے اتحاد کے لئے کوشاں ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر مشورہ دیتے ہیں کہ قوم پرست اختلافات بھلا کر متحدہو جائیں اور عوامی ایشوز پر مشترکہ حکمت عملی اپنائیں تو مثبت انتخابی نتائج کا حصول ممکن ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے۔ سیاسی حالات میں سندھ کی مڈل کلاس پر محنت کی جائے تو فرسودہ قیادت کا فسوں توڑا جا سکتا ہے۔ لیکن جب قوم پرست خود وڈیروں کو اپنا ہیرو و رہنما تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Zareen Sindh main Dhaan Ki Buwai Per Pabandi is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 May 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.