مردم خور”سیاسی بلی“کس کی تھی

سندھ حکومت نے کراچی کی آبادی کو اپنا لقمہ تر بنا لیا

پیر 18 جنوری 2021

Mardam Khoor Siyasi Billi Kis Ki Thi
راؤ محمد شاہد اقبال
وفاقی وزیر علی زیدی کا طنزیہ لہجے میں یہ کہنا کہ ”اپوزیشن کے 5 رہنما،ابھی اپنے کنفرم استعفے اسپیکر کی خدمت میں پیش کریں اور ہم سے عمرے کے ٹکٹ بطور انعام فوری طور پر حاصل کر لیں“لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔عوامی نقطہ نظر سے علی زیدی کی سیاسی پیشکش بظاہر نفع بخش معلوم ہوتی ہے مگر یہ پیشکش اپوزیشن رہنماؤں کے حسب حال اور حسب خواہش ہر گز نہیں ہے ،ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر وفاقی وزیر علی زیدی تھوڑی سی مزید سیاسی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کنفرم استعفوں کے عوض عمرے کے بجائے لندن یا واشنگٹن کے ٹکٹ دینے کا اعلان کرتے تو عین قرین قیاس تھا کہ اپوزیشن کے بہت سے رہنما اُن کی اس پرکشش سیاسی پیشکش کو بلا کسی حیل و حجت قبول فرما لیتے، خاص طور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے تو حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف احتجاج کا سارا تام جھام سجایا ہی فقط اس لئے ہے کہ کسی طرح انہیں لندن واپسی کا ٹکٹ حاصل ہو سکے مگر شومئی قسمت کہ سرِدست تحریک انصاف کی حکومت کنفرم استعفوں کے عوض لندن یا واشنگٹن کا ٹکٹ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی،لہٰذا غالب امکان یہ ہی ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے استعفے ایک جیب سے دوسری جیب میں ہی خجل خوار ہوتے رہیں گے اور کبھی بھی منظوری کے لئے سپیکر کی میز تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

(جاری ہے)


لطیفہ تو یہ ہے کہ سیاسی غلطی سے جن دو اپوزیشن اراکین کے استعفے قومی اسمبلی کے سپیکر تک پہنچ گئے ہیں،اُنہیں بھی واپس ہتھیانے کے لئے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا۔دراصل مینار پاکستان لاہور میں اپوزیشن الیون کے تاریخی فلاپ ترین جلسے نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی صفوں میں بے شمار دراڑیں ڈال دی ہیں اور سیاسی نفاق کی یہ دراڑیں اس قدر کشادہ اور گہری ہیں کہ ان کی مرمت یا بخیہ گری کر پانا،اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے لئے کم و بیش ناممکن ہی سمجھئے ویسے بھی مولانا کی اپنی جماعت میں بھی،خود ان کے خلاف یکے بعد دیگرے چہار جانب سے علم بغاوت بلند ہونا شروع ہو گئے ہیں،نیز پیپلز پارٹی بھی سندھ حکومت کو گرانے کے اپنے سابقہ بیانیے سے مکمل طور پر رجوع فرما چکی ہے۔


اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں جاری ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کی شدت کا درست اندازہ لاڑکانہ میں بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر منعقدہ جلسہ سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔بادی النظر میں لاڑکانہ کا یہ جلسہ پی ڈی ایم کا زبردست سیاسی پاور شو بھی بن سکتا تھا اگر اس جلسے میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن شرکت کرنے کی زحمت فرما لیتے لیکن مولانا فضل الرحمن کو جس سیاسی مصروفیت نے لاڑکانہ آنے سے روکے رکھا،وہ لاڑکانہ میں جمعیت علمائے اسلام ف کی جملہ قیادت کا بے نظیر بھٹو کے مزار پر زبردست احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اندیشہ تھا۔

ذرائع کے مطابق لاڑکانہ میں جے یو آئی ف اور پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے درمیان من پسند افسران کی تعیناتی کے معاملے پر اختلافات اس قدر شدید ہو گئے تھے کہ جے یو آئی ف کے مقامی رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمن پر واضح کر دیا تھا کہ اگر انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے ان کے مطالبے کو منظور کروائے بغیر لاڑکانہ میں منعقدہ پیپلز پارٹی کے جلسہ میں شرکت کرنے کی کوشش کی تو وہ ان کی آمد کا ذرہ برابر بھی لحاظ کئے بغیر بے نظیر بھٹو شہید کے مزار پر احتجاجی دھرنا دے دیں گے۔


ایک لمحہ کیلئے ذرا سوچئے کہ اگر مولانا فضل الرحمن کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو کے مزار پر جے یو آئی ف کی مقامی قیادت کی جانب سے احتجاجی مظاہر ہو جاتا تو پی ڈی ایم کا مردہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہونے میں کتنی دیر لگنا تھی؟بظاہر مولانا فضل الرحمن نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت نہ کرکے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو یقینی سیاسی موت سے فی الحال تو بچا لیا ہے لیکن دوسری جانب ان کے اس اقدام سے باول بھٹو زرداری کے دل میں بد اعتمادی کی ایک سخت گرہ ضرور لگ گئی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف ایک چھوٹے سے سیاسی و انتظامی معاملے پر ان کی والدہ مرحومہ کے مزار پر احتجاجی مظاہرہ کی دھمکی دے سکتی ہے تو وہ مستقبل میں سیاسی مفادات کے لالچ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر سکتی؟۔

جبکہ پیپلز پارٹی کے جملہ کارکنان اور رہنماؤں میں بھی اس دھمکی کو لے کر جمعیت علمائے اسلام ف کی مقامی و مرکزی قیادت کے خلاف شدید ترین غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کا تو یہ بھی خیال ہے کہ پی ڈی ایم کو قائم رکھنے کیلئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو اتحاد کی صدارت سے علیحدہ کر دیا جائے جبکہ سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت بھی یہ ہی رائے رکھتی ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن کی اپنی جماعت میں انہیں قیادت سے ہٹانے کے لئے کوئی”سیاسی کوششیں“تیز ہو جاتی ہے تو پھر مولانا کا پی ڈی ایم کی صدارت پر فائز رہنا بھی انتہائی مشکل ہو جائے گا۔

اپوزیشن الیون کی سیاسی خستہ حالی اور بدحالی دیکھ کر صاف نظر آرہا ہے کہ سینٹ الیکشن سے پہلے پہلے پی ڈی ایم اتحاد پارہ پارہ ہو کر راہی ملک عدم ہو جائے گا اور مولانا فضل الرحمن ماضی میں کئے گئے آزادی مارچ کی طرح مستقبل کے لانگ مارچ کرنے کیلئے بھی ”ٹک ٹک دیدم،دم نہ کشیدم“ کے مصداق حکومت کے خلاف اکیلے ہی کھڑے رہ جائیں گے پچھلی بار تو پھر بھی مولانا نے امانت کا ”سیاسی وعدہ“ لے کر اپنی عزت سادات بچا لی تھی لیکن اس بار مولانا خود کو نیب کی ممکنہ حراست سے ہی بچا لیں تو بڑی سیاسی بات ہو گی اس لئے مولانا فضل الرحمن کے لئے مخلصانہ مشورہ تو وہی ہے جو وفاقی وزیر علی زیدی نے دیا ہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی قیادت سے ازخود ہی”کنفرم استعفا“ دے کر مفت میں عمرہ کا ٹکٹ حاصل کر لیا جائے کیونکہ لاڑکانہ کے جلسے کے بعد تو بچہ بچہ جان گیا ہے کہ ”اب خطرہ ہے مولانا کو، خطرے میں عمران نہیں“۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mardam Khoor Siyasi Billi Kis Ki Thi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.