مالیاتی اداروں کی بلیک میلنگ اور ڈگمگاتی معیشت

عالمی دباؤ کو پس پشت ڈال کر ایران سے تجارتی روابط مستحکم کئے جائیں

ہفتہ 30 جنوری 2021

Maaliyati Idaroon Ki Blackmailing
رحمت خان وردگ
جنرل مشرف نے اپنے دور میں ایران سے 3 ماہ کے کریڈٹ پر پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کا معاہدہ کیا اور بحری جہازوں کے ذریعے ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کراچی لا کر اپنی ریفائنریز کے ذریعے ریفائن کرکے مقامی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے ذریعے پیٹرول پمپوں اور صارفین کو مہیا کیا جاتا تھا جس سے عام آدمی کو معیاری پیٹرولیم مصنوعات میسر تھیں اور حکومت کو ہر مرحلے پر رائج ٹیکس ملتا تھا جس سے معیشت مستحکم تھی اور جنرل مشرف نے کئی عالمی مالیاتی اداروں کو قبل ازوقت ادائیگی کرکے قرضے ختم کر دیئے تھے،موجودہ حکومت بھی ایران سے اسی طرح کا معاہدہ کرکے سرکاری طور پر ایرانی پیٹرولیم مصنوعات لائے اور سمگلنگ کا مکمل خاتمہ ضروری ہے جس کے لئے سب سے زیادہ بارڈر پر سختی ہونی چاہئے کیونکہ اس وقت یہ صورتحال ہے کہ ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کا کاروبار کرنے والے اداروں کو بدنام کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ رینجرز اور ایف سی سے مل کر ہم یہ کاروبار کر رہے ہیں حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ بااثر سیاسی افراد اس گھناؤنے کاروبار کے سرپرست ہیں اور بھاری رقوم کما رہے ہیں لیکن اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


گزشتہ دنوں ایف بی آر کی جانب سے اشتہار شائع ہوا کہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرکے سخت سزائیں اور جرمانے عائد کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے تاکہ ملکی معیشت کو سالانہ 200 ارب روپے کے نقصان سے بچایا جا سکے۔یہ کریک ڈاؤن خوش آئند ہے جس پر چیئرمین ایف بی آر داد تحسین کے مستحق ہیں۔ملکی معیشت کو بھاری نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو غیر معیاری پیٹرولیم مصنوعات مل رہی ہیں اور پہلے تو ایرانی پیٹرولیم مصنوعات صرف بلوچستان کے کچھ علاقوں تک محدود ہوتی تھیں لیکن اب یہ ملک بھر میں کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں اور موجودہ حکومت کے آنے سے اب تک تقریباً 900 ارب روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچ چکا ہے۔

دیر آید درست آید کی مصداق اگر اب اس کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے اور اس وقت یہ صورتحال ہے کہ ملک بھر کے 90 فیصد پیٹرول پمپوں پر ایرانی ڈیزل اور پیٹرول مکس کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔
حکومت سرکاری منظوری کے بغیر قائم ایجنسیوں اور پیٹرول پمپوں کے خلاف تو سخت ایکشن لے لیکن ساتھ ساتھ سرکاری منظور شدہ پمپوں پر بھی ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت کے خلاف سخت ایکشن لے اور جرمانے و سخت ترین سزائیں دی جائیں۔

پیٹرول پمپ مالکان ڈیلر کمیشن کم ہونے کی وجہ سے مجبوراً بھی ایسا کر رہے ہیں۔جنرل مشرف کے دور میں ڈیزل اور پیٹرول سستا تھا اور قیمت 62 روپے لیٹر تھی تو ڈیلر کمیشن 3 روپے لیٹر تھی جس کی وجہ سے پمپ مالکان ملاوٹ نہیں کرتے تھے۔حکومت کو چاہئے کہ اپنے ٹیکس میں اضافے کے ساتھ ساتھ آئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈیلرز کی کمیشن میں اضافہ کرے اور ڈیلرز کی کمیشن کم از کم 5 روپے لیٹر مقرر کی جائے تاکہ ان کے اخراجات پورے ہوں اور وہ ملاوٹ پر مجبور نہ ہوں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کیروسین اور لائٹ ڈیزل عام آدمی کو سرکاری ریٹ پر ملنا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ دونوں چیزیں براہ راست پمپوں پر ڈیزل اور پیٹرول میں مکس ہو رہی ہیں اور عام آدمی کو کیروسین سرکاری ریٹ سے دوگنی قیمت پر
120 روپے لیٹر بمشکل ملتا ہے۔


حکومت کو چاہئے کہ جنرل مشرف کی طرح کیروسین‘لائٹ ڈیزل‘کروڈ آئل‘پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت برابر کر دے تاکہ ملاوٹ کا خاتمہ ہو اور عام آدمی کو لائٹ ڈیزل اور کیروسین سرکاری قیمت پر مل سکے۔ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کی سمگلنگ کے علاوہ ایرانی سرف صابن‘چپل‘ گریس اور ڈامر سمیت درجنوں اشیاء اور افغان طورخم و چمن بارڈر سے ٹائرز کی سمگلنگ سے قومی خزانے کو کم از کم 600 ارب سالانہ سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔

افغان بارڈر سے آنے والا ٹائر قانونی طور پر آنے والے ٹائر سے بہت ہی سستا ہے اسی لئے حکومت کو ٹیکس دے کر لایا جانے والا ٹائر فروخت نہیں ہوتا بلکہ سمگلنگ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زبردست اضافہ ہو رہا ہے ۔ایف بی آر چیئرمین کو چاہئے کہ صرف ایرانی ڈیزل اور پیٹرول نہیں بلکہ ایرانی سرف صابن‘چپل‘گریس اور ڈامر سمیت درجنوں اشیاء اور افغان بارڈر سے ٹائرز کی سمگلنگ کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کا آغاز کریں اگر حکومت اور سرکاری ادارے پورے دیانتداری سے سمگلنگ روکنے کے لئے کریک ڈاؤن کریں تو ملکی خزانے کو یومیہ اربوں روپے کا فائدہ مل سکتا ہے۔


افغانستان بارڈر سے ٹائرز کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن سے یقینی طور پر حکومت کو ماہانہ اربوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں اسی لئے ایران بارڈر سے سمگلنگ کا مکمل خاتمہ کرنے سے ملکی معیشت کو زبردست فائدہ پہنچے گا اور حکومت بارڈر پر سختی کرکے ان اشیاء کو ملک بھر میں لائے جانے کو ناممکن بنا دے اور حکومت افغان و ایران بارڈر پر ڈیوٹی اور ٹیکس لے کر ان اشیاء کو لانے کی اجازت دے سکتی ہے اگر ہماری حکومت ایران اور افغان بارڈر سے سمگلنگ کی روک تھام میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہمیں کسی قرضے کی قطعی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ ہماری معیشت میں انقلابی بہتری آجائے گی بصورت دیگر ہم عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول لئے پھرتے رہیں گے جیسا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ ڈھائی سال میں بھاری قرضے لے کر ملک چلایا ہے اور افغان و ایران بارڈر سے سمگلنگ کی وجہ سے ہی تقریباً 900 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے ۔

اسی لئے وزیراعظم اور چیئرمین ایف بی آر فوری طور پر ایران اور افغان بارڈر سمگلنگ کا مکمل خاتمہ ممکن بنائیں تو ملکی خزانے کو انقلابی فائدہ پہنچنے گا،کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ نے بھی ایران پر امریکی پابندیوں کو غیر قانونی قرار دے کر دنیا بھر کو ایران سے تجارت کرنے کی اجازت دی تھی اور کہا تھا کہ ایران پر امریکہ کی پابندیاں بلاجواز ہیں ویسے بھی ایران سے تجارت کے لئے بھارت کو کھلی چھوٹ حاصل ہے اور امریکہ کو ایران بھارت تجارت نظر نہیں آتی تو ہمیں بھی کسی عالمی دباؤ کو پس پشت ڈال کر ایران سے اپنی تجارت میں زبردست اضافہ کرنا چاہئے اور دونوں ممالک مقامی کرنسی میں تجارت کے زیادہ سے زیادہ معاہدے کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Maaliyati Idaroon Ki Blackmailing is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.