نواز شریف کے بیانیے سے اپوزیشن کا انحراف

سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ملکی معاملات مزید گھمبیر ہو جائیں گے

جمعہ 25 دسمبر 2020

Nawaz Sharif K Bayaniye Se Opposition Ka Inheraf
رحمت خان وردگ
پی ڈی ایم بے شک جتنی بھی کمزور نظر آرہی ہے لیکن مستقبل میں ان کے لانگ مارچ اور دھرنے میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے افرادی قوت کی فراہمی کے بعد تحریک میں جان پڑ سکتی ہے اور ہمیشہ صوبائی حکومتیں لانگ مارچ میں رکاوٹ بننے کے بجائے انہیں اسلام آباد تک جانے کا محفوظ راستہ دینے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں اور پھر اگر اسلام آباد میں دھرنا شروع ہو گیا اور جس طرح کا اب تک حکومتی موقف ہے کہ اپوزیشن سے مذاکرات کا مطلب انہیں این آر او دینا ہے جو کسی صورت ممکن نہیں یعنی حکومت فی الوقت کسی بھی صورت اپوزیشن سے بات چیت کے لئے قطعی تیار نہیں،اس وقت تک حکومت کی جانب سے عام آدمی کے لئے کوئی آسانی پیدا نہیں ہو سکی اور متوسط طبقہ حکومت سے متنفر ہے اور اگر انہی مسائل کی وجہ سے اپوزیشن کی کال پر کثیر تعداد پر لوگ اسلام آباد پہنچ گئے تو بھی حکومت کے لئے مسائل میں اضافہ ہو گا کیونکہ پہلے ہی بغیر کسی موٴثر اپوزیشن اور موٴثر تحریک کے ہی حکومت کی کارکردگی کچھ زیادہ قابل ستائش نہیں اور اگر دھرنا ہو گیا تو پھر حکومت کے لئے امور مملکت چلانا مشکل ہو جائے گا اور ایسے میں اگر حکومت اپنے موجودہ موٴقف پر قائم رہتی ہے کہ کسی صورت مذاکرات نہیں ہوں گے تو معاملہ کسی بھی طرف جا سکتا ہے لیکن بطور مجموعی سیاستدانوں کے موجودہ رویئے سے ملک کو نقصان ہو گا۔

(جاری ہے)


تحریک انصاف کے قائدین نے قوم سے وعدے کئے تھے کہ ہم اقتدار میں آکر عوام کی تمام تر مشکلات جلد از جلد ختم کرکے ملک کو ایک مثالی ملک بنا دیں گے اور انہی دعووٴں پر عوام نے انہیں الیکشن 2018ء میں منتخب کیا اور امید باندھ لی کہ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی پہلے دن سے تبدیلی نظر آئے گی لیکن بد قسمتی سے مثبت تبدیلی کے بجائے منفی تبدیلی آئی اور حکومت حالات بہتری کی جانب لے جانے کے بجائے مہنگائی‘بے روزگاری سمیت دیگر بنیادی مسائل میں اضافے کو کنٹرول نہیں کر سکی حالانکہ حکومت کو پہلے دو سال اپوزیشن کی کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا اور انہیں حکومت کرنے میں کھلی چھوٹی حاصل تھی خیر اپوزیشن تو اب بھی امور حکومت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بن سکی۔

حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے متوسط طبقہ شدید مایوسی کا شکار ہو چکا ہے اور متوسط طبقے میں حکمراں جماعت کی ہمدردی میں زبردست کمی آئی ہے۔بجلی ٹیرف‘ کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی‘بے روزگاری سمیت مسائل میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور حکمراں جماعت سے عوام کی امیدوں کی زبردست ٹھیس پہنچی ہے۔
وزراء کے پاس ٹی وی پر اپنی کارکردگی بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں اور صرف سابق حکمرانوں پر الزام تراشی کرکے تمام مسائل کا ذمہ دار انہیں ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اپوزیشن نے تحریک کا آغاز کیا اور مرحلہ وار بڑے شہروں میں جلسے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں میاں نواز شریف نے ایسا بیانیہ اختیار کیا جس کا دفاع اپوزیشن اتحاد میں شامل 11 جماعتوں کے لئے مشکل ہو گیا اور اپوزیشن اتحاد نے اپنی میٹنگز میں بار بار اس معاملے پر مشاورت کی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے کئی رہنماؤں نے نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ جانے سے معذرت کرکے درست سمت رکھنے کا مشورہ دیا اسی لئے اب تک اپوزیشن تحریک سے حکومت کو کوئی نقصان ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن لاہور میں آئندہ جلسے کے بعد معاملہ دھرنے اور لانگ مارچ کی جانب جانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔


اپوزیشن سے ملکی مسائل کے حل’قانون سازی‘نظام میں تبدیلی سمیت اہم ترین ایشوز پر بات چیت کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟اس طرز کی بات چیت کو بھی این آر او قرار دینا درست نہیں۔اگر حکومت اپوزیشن مل بیٹھ کر عوامی مسائل کے حل’مہنگائی میں کمی‘ بے روزگاری میں کمی‘ فوری ضرورت کی موٴثر قانون سازی‘بلدیاتی‘انتخابی‘انتظامی اور عدالتی نظام کی تبدیلی سمیت اہم ترین ایشوز پر بات چیت کرکے قومی اتفاق رائے سے تمام سیاستدان ایک معاہدہ کریں جس پر مل جل کر فوری عملدرآمد کیا جائے اس سے ملک کی معیشت اور عوام کے مسائل پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اس طرح کی بات چیت سے اپوزیشن میں بھی یہ اعتماد آئے گا کہ حکومت ہم نے اہم قومی ایشوز پر مشاورت کرتی ہے اور آئندہ انتخابات کے ہر صورت شفاف انعقاد کے لئے حکومت کو اپوزیشن کی تجاویز پر غور کرکے قابل عمل تمام تجاویز مان لینی چاہئیں۔

اس طرح کرنے سے اپوزیشن کی تحریک میں تلخی کا عنصر ختم ہو گا اور آئندہ الیکشن تک وہ حکومت کو ٹائم دینے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔
عوام کو اپنے مسائل کا حل چاہئے‘ملک کی مضبوطی معیشت کی مضبوطی میں مضمر ہے اور ان تمام چیزوں کے لئے سیاسی افہام و تفہیم ضروری ہے ۔ماضی میں جتنی بھی حکومتوں نے اپوزیشن سے مذاکرات میں ٹال مٹول کی تو ہمیشہ حکومتوں کو ہی نقصان ہوا اور معاملات مارشل لاء تک پہنچ گئے جس کی تمام تر ذمہ داری ہمیشہ سیاستدانوں کی انا اور غلط روش رہی ہے۔

حکومت ہو یا اپوزیشن‘دونوں کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ فوری مذاکرات کا آغاز کرکے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ سیاستدان بھی بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں مخلص ہیں۔مذاکرات کرکے ایسی قومی حکومت بنائی جائے جس میں غیر جانبدار وزیراعظم آئے اور پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کو ان کی نمائندگی کی شرح سے قومی حکومت میں وزارتیں ملنی چاہئیں یا پھر تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر نئے انتخابات کرانے کا معاہدہ کریں جو شفاف ترین طرز پر منعقد ہوں اور جس جماعت کو اکثریت حاصل ہو‘اسے حکومت ملنی چاہئے۔


اس وقت ملک کئی بحرانوں کا شکار ہے اور سیاستدانوں کے رویوں کے باعث ملک کو مزید نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اگر سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور معاملات مزید گھمبیر ہو گئے تو ملک چلانے کے لئے مارشل لاء ناگزیر ہو جائے گا لیکن اس کی تمام تر ذمہ داری ہمیشہ کی طرح اب بھی سیاستدانوں پر ہی عائد ہو گی بہرحال مذاکرات کی جانب پیش رفت کی زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے تاکہ معاملات لانگ مارچ اور دھرنوں تک جانے اور ملک کے معاشی نقصان سے پہلے ہی حل ہو جائیں۔

حکومت کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت اور ملکی مسائل کا بار بار تمام تر مسائل کا ذمہ دار حکومت کو قرار دینے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ اپوزیشن کے لیڈروں کے کیسز عدالتوں میں ہیں اور عدالتوں کو ہی ان کا فیصلہ کرنے دیا جائے کیونکہ اب تک حکومت کی جانب سے لگائے گئے زیادہ تر الزامات عدالتوں میں ثابت نہیں ہو سکے لیکن حکومت کی صبح شام یہی رٹ عوام کے کسی کام کی نہیں بلکہ عوام اب یہ باتیں بار بار سن کر بیزار ہو چکی ہیں اور عملی طور پر ریلیف کے منتظر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Nawaz Sharif K Bayaniye Se Opposition Ka Inheraf is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.