ضیاء شاہد صاحب

جمعرات 15 اپریل 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

کچھ باتیں انسان سن لیتا ہے سمجھ لیتا ہے اور وہ ہو چکی ہوتی ہیں لیکن ذہن تسلیم نہیں کرتا کہ یہ ہو چکا ہے، دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے وہ کسی بھی صورت وہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور یہ تقریباً ہر انسان کی زندگی میں ہوتا ہے کہ کبھی کبھار ایسی خبر ملتی ہے کہ ہم سکتے میں آ جاتے ہیں یہ خبر بعض اوقات خوشی اور کبھی غم کی صورت میں بھی ملتی ہے دونوں صورتوں میں انسان چند لمحوں کے لیے ہر چیز سے بیگانہ ہو جاتا ہے، 12 اپریل کی شب میں ضیاء شاہد صاحب کی کتاب پڑھ رہا تھا جب مجھے ان کی وفات کی خبر ملی مجھے یقین نہ آیا کہ میں ابھی جس انسان کے سحر میں جکڑا ان کی تحریریں پڑھ رہا تھا ان کو کیسے کچھ ہو گیا یہ نہیں ہو سکتا میں نے جلدی سے تین چار جگہ فون کیا تصدیق ہونے پر رونا آگیا کہ ایسے لوگوں کو جلدی اس دنیا سے رخصت نہیں ہونا چاہیے جو دوسروں کی زندگیوں میں خوشیاں لاتے ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں جو خود سے زیادہ غیروں کو محبت دیتے ہیں ایسے لوگوں کو جلدی نہیں مرنا چاہیے،
ضیاء شاہدصاحب 4 جنوری 1945ء کو گڑھی یاسین ضلع شکار پور (سندھ) میں پیدا ہوئے۔

(جاری ہے)

والد کا نام چوہدری جان محمد تھا جو ضلع شکار پور میں اسسٹنٹ کمشنر بھی رہے تھے۔ والد کا تعلق جالندھر مشرقی پنجاب سے تھا۔ جو بعد میں بہاولنگر آ گئے تھے جہاں سے ضیاء شاہد صاحب نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا پھر ملتان اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے تعلیم حاصل کر کے صحافت سے وابستہ ہو گئے، ضیاء شاہد صاحب نے روزنامہ جنگ لاہور سے صحافت کا آغاز کیا اور جوائنٹ ریذیڈنٹ ایڈیٹر تک ترقی کی لیکن چند انتظامی امور میں تلخی پر ان کو روزنامہ جنگ چھوڑنا پڑا،  پھر روزنامہ نوائے وقت لاہور کے ڈپٹی ایڈیٹر اور روزنامہ نوائے وقت کراچی کے ریذیڈینٹ ایڈیٹر رہے، قبل ازیں سات برس تک اردو ڈائجسٹ کے ڈپٹی ایڈیٹر رہے،ہفت روزہ صحافت کے ایڈیٹر، پرنٹر پبلشر بھی رہے، 1990ء میں چند دوستوں کے ساتھ مل کر روزنامہ پاکستان نکالا جس کے بانی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا کچھ وجوہات کی بنا پر روزنامہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لی اور روزنامہ خبریں لانچ کیا جس سے ترقی کرتے ہوئے نیا اخبار، روزنامہ خبرون سندھ اور روزنامہ خبراں پنجابی میں لانچ کیا، ضیاء شاہد صاحب کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹر کے صدر بھی رہ چکے تھے،  ضیاء شاہد صاحب بے باک اور انتہائی دلیر تھے انہوں نے ہمیشہ دل کی آواز پر لکھا اور آزادی صحافت کی پاداش میں سات ماہ کی قید کاٹی، اور پھر پاکستانی صحافت میں اعلٰی خدمات پر ضیاء شاہد صاحب کو پرویز مشرف دور میں سول اعزاز ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، اور جبکہ سی پی این ای کی طرف سے نواز شریف کے ہاتھوں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا، ضیاء شاہد صاحب انتہائی وطن پرست تھے یہ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے تھے انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح پر بے شمار مضامین، فیچرز لکھے مذاکرے اور مباحثے کروائے، پی ٹی وی سے ایک سال تک روزانہ کی بنیاد پر بانی پاکستان کی زندگی پر ایک دلچسپ اور سبق آموز واقعہ بھی سناتے رہے، انہوں نے کئی بہترین کتب بھی لکھیں جن میں یہ چند کتابیں لازوال ہیں ان کو پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے،
1) باتیں سیاست دانوں کی
2)صحافی کے سفر نامے
3)سچا اور کھرا لیڈر
4)میرا دوست نواز شریف
5)پاکستانی صحافت کے 24 ایڈیٹرز
6)پاکستان کے خلاف سازش
7)گاندھی کے چیلے
8)امی جان
9)ہنستا کھیلتا عدنان
ضیاء شاہد صاحب نے اپنی پوری زندگی میں انتھک محنت کی  یہ کبھی چین سے نہیں بیٹھے یہ ہمیشہ چلتے پھرتے نظر آئے یہ بیمار بھی ہوتے تو چہرے سے ظاہر نہیں کرتے تھے لیکن ایک دکھ ان کو اندر سے کھا گیا وہ ان کے بیٹے کی موت کا دکھ تھا جو 2012 کو ضیاء شاہد صاحب کو ان کے علاج معالجہ کی غرض سے واشنگٹن لے کر گیا تھا، جہاں سے لندن پہنچنے کے بعد ٹکٹ کنفرم کروانے کی غرض سے ٹریول ایجنسی گئے ٹکٹ کنفرم کروا کر باہر نکلتے عدنان شاہد کو دل کا دورہ پڑا طبی امداد ملنے سے پہلے ہی وفات پا گئے، ضیاء شاہد صاحب کوبیٹے کا غم لگ گیا ان کی زندگی خاموشی ہو گئی یہ بیمار رہنے لگے لیکن محنت نہیں چھوڑی یہ کام کرتے رہے پھر دوسرے بیٹے امتنان شاہد نے ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ضیاء شاہد صاحب کے کندھوں کا بوجھ ہلکا ہو گیا، لیکن لکھنے میں کمی نہ آئی ان کے کالم بڑے اصلاحی اور سبق آموز ہوتے تھے یہ حقوق العباد پر بے حد توجہ دیتے یہ انسانیت کے اتنا قریب تھے کہ آپ کو ان کے چند کالم پڑھ کر بے اختیار رونا آجائے گا، ضیاء شاہد صاحب میں بے پناہ عاجزی و انکساری تھی یہ کبھی امیر غریب کا فرق نہیں رکھتے تھے یہ زمین پر بیٹھ جاتے تھے،
جب ضیاء شاہد صاحب کی کتاب سچا اور کھرا لیڈر  آئی تو ممنون حسین صاحب تب صدر پاکستان تھے تو ائیرپورٹ پر انہوں نے ضیاء شاہد صاحب کو بڑی حیرت سے کہا کہ ضیاء صاحب ایسی کتابیں پاکستان میں بھی شائع ہوتی ہیں کہ اتنی خوبصورت کتاب ہے، ضیاء شاہد صاحب نے ساری زندگی شدید مشقت میں گزاری ملک و قوم کی خدمت کے لیے، انہوں نے پوری توانائی کے ساتھ  ملک اور قوم کی خدمت کی وہ کہتے تھے کہ جب ہمارے پاس کم وسائل ہوتے ہیں تو ہم کوئی نیا تجربہ کرتے ہیں جس سے وسائل پیدا ہو جائیں،  ضیاء شاہد صاحب نئے لکھنے والوں کے لیے ایک وسیع سمندر اور یونیورسٹی کی طرح تھے بلکہ ان کی ہر کتاب تقریباً 80 سے زائد کتب لکھی ہیں تو ہر کتاب اپنے اندر ایک علم کا سمندر بند کیے ہوئے ہے، ضیاء شاہد صاحب تاریخ کا ایک نام ایک عہد تھے انہوں نے جدید صحافت کی بنیاد رکھی انہوں نے اپنی مکمل زندگی اسی کام میں لگا دی،  وہ کہتے تھے کہ انسان کو نئے سے نئے تجربات کرنے چاہیئں تھک کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے  ناکامیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ نئی امید کے ساتھ نیا کام شروع کرنا چاہیے کہیں نا کہیں کامیابی منتظر ہوتی ہے، وہ کہتے تھے کہ میری بیٹی نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ روز کالم نہ لکھا کریں وقفے سے لکھا کریں آپ کی طبیعت ساتھ نہیں دیتی تو ضیاء شاہد صاحب نے کہا کہ بیٹی اس طرح میرا تسلسل ٹوٹ جائے گا جو کئی سالوں سے چلا آرہا ہے اور میں وہ تسلسل توڑنا نہیں چاہتا، اسی طرح وہ لکھتے رہے اور ان کا آخری کالم 28 مارچ کو آیا جس کا موضوع اخبارات کا مستقبل کیا ہو گا، جس میں انہوں نے اخبار کی ترسیل میں کمی پر لکھا تھا اپنے بارے میں چند باتیں کہی تھی،  ضیاء شاہد صاحب زندگی کے آخری لمحات تک اپنے ملک اپنے کام کے لیے مخلص تھے ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ جنون کی حد تک ملک سے محبت کرتے تھے اور شاید ایسا ہی تھا کیونکہ وہ عظیم انسان تھے اور ایسے لوگ بے شک ہم سے جدا ہو جائیں لیکن رہتے ہمارے درمیان ہیں یہ لوگ خوشبو بن کر ہمارے دلوں میں بسیرا کر لیتے ہیں یہ جہاں جاتے ہیں رونق لے آتے ہیں اور جب وہاں سے رخصت ہوتے ہیں تو ہر سو اداسی اور ویرانہ کر جاتے ہیں،
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ضیاء شاہد صاحب جیسی شخصیت کا ہم سے بچھڑنا بہت دردناک ہے یہ علمی و ادبی دنیا کے درخشاں ستارے تھے اب پاکستان ان کی خدمات سے محروم ہو گیا یہ اپنے عہد کے عظیم ادیب اور دانشور تھے ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے، لیکن موت آنی ہے سب کو آنی ہے موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی، آنکھوں کو رلانے والی،بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی، لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی وادیوں میں  جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی شے ہے۔

موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی چوہدریوں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اور پھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔ موت نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی ہے، نہ ظالموں کو بخشتی ہے، موت ہے اور ہر جاندار نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے ہم تیاری کر لیں یہی بہتر ہے ورنہ کوئی وقت مقرر نہیں جب حکم ہو گیا ہم نے چلے جانا ہے اور رکنے کا کوئی راستہ نہیں،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :