اسلام میں غریبی کا علاج اور عزم وزیراعظم‎

جمعہ 29 مارچ 2019

Abdul Jabbar Shakir

عبدالجبار شاکر

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جہاں یہ انسانی زندگی کے تمام پہلووٴں کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہاں اس نے ایک غریب شخص کے لئے بھی اصول و ضوابط چھوڑے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر وہ بھی معاشرے کے متمول طبقہ میں شامل ہو سکتا ہے۔ جب سے نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کی نئی فرم وجود میں آئی ہے تب سے ہی کچھ نئے عزم بھی ظاہر ہو رہے ہیں ۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم صاحب نے پنجاب میں صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا اور حال ہی میں غربت مکاوٴ مہم کا آغاز ہوا یہ ایک اچھا اور خوش آئندہ پہلو ہے لیکن اس وقت تک جب تک انسان سوچے نہ اگر سوچنا شروع کر دے تو تمام حقیقت حال کھل کر سامنے آجائے گی کہ یہ کیا گورکھ دھندا ہے اور اس کا کس حد تک کب کس کو فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کے کیا نقصانات ہیں 
یہ بات ایسے ہی ہے جیسے ایک بکری کو عمدہ سے عمدہ خوراک مہیا کی جائے لیکن اس کو شیر کے سامنے باندھ دیا جائے۔

(جاری ہے)

 گزشتہ ماہ صحت کارڈ کا اجراء کیا گیا اب غربت مکاوٴ مہم کا آغاز ہو رہا ہے انسان یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔جب دودھ گوشت مصالحہ جات اور خرد و نوش کی دیگر تمام اشیاء جعلی اور ناقص فراہم کی جا رہی ہیں بجلی گیس پیٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں زمین والوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان سے باتیں کریں تو یہ عزم اور مہم جوئیوں کا کیا فائدہ۔

 پچھلے برس اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد لوگ بے روز گار اور 9 کروڑ آبادی غربت کی چکی میں پس رہی ہے جبکہ گزشتہ برس ہی کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی تقریبا پونے 21 کڑوڑ کے قریب ہے مجموعی حساب سے معلوم ہوا پاکستان کی نصف کے قریب آبادی غربت کا شکار ہے۔
سرمایہ دارانہ اور کمیونیزم نظام نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کے دنیا سے غربت کا خاتمہ ہو جائے لیکن دونوں افراط و تفریط کا شکار رہے اور 80 سالہ تجربہ کے بعد کمیونیزم ماہرین اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ خدائی نظام کو بدلہ نہیں جا سکتا۔

ان کی یہ بات بجا لیکن اس میں خاطر خواہ کمی تو لاء جا سکتی ہے ۔وطن عزیز جن مسائل سے دو چار ہے یہ بات کسی سے ڈکھی چھپی نہیں امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اس کی آخر وجہ کیا ہے ؟ وزیراعظم صاحب نے خیراتی مہم کا تو آغاز کر دیا لیکن ان اسباب کی طرف توجہ نہیں دی جن کی وجہ سے یہ ناسور بڑھتا جارہا ہے ۔
تاریخ شاہد ہے خیراتوں سے کبھی غربت ختم ہوء ہے نہ ہو گی اگر یہ نظام چل نکلا تو کس کا دل نہ کرے گا کے وہ حکومتی لونس حاصل کرے حالانکہ اولین کرنے کا کام تو یہ ہے کہ بڑے بڑے مگر مچھوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں تا کہ وہ چھوٹوں کا استحصال نہ کر سکیں زراعت کے لئے آگاہی مہم اور جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے تا کے زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو ۔

ہنر مند افراد کے ہنر سے فائدہ اٹھایا جائے تا کہ ملکی معیشت کو فائدہ حاصل پہنچے تعلیم یافتہ طبقہ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تاکہ جہالت کا سد باب ہو غریب عوام کو پیشہ جات مہیا کیا جائیں تا کے وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں 
یہ سبھی کام اس وقت ہو سکتے ہیں جب اسلام کے غریبی مکاوٴ نظام پر عمل پیرا ہوا جائے ۔اسلام نے اس کے لئے سنہری اصول تجارت ،زراعت، دستکاری، صلہ رحمی، نظام زکوة صدقات و میراث اوقاف کفارہ جات وغیرہ فراہم کیے ہیں جب ان کو اپنایا جائے گا تو یقیناً یہ ملک ریاست مدینہ ہی متصور ہو گا لیکن اگر ان سے روگردانی کی تو پھرپھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :