پولیو مہم اور ممکنہ خدشات

جمعہ 26 اپریل 2019

Abdul Jabbar Shakir

عبدالجبار شاکر

چند دن قبل ملک میں رواں سال کی دوسری ملک گیر پولیو مہم کا آغاز کیا گیا جس میں 2 لاکھ60 ہزار ورکرز نے حصہ لیا اور یہ ہدف قرار پایا کہ 3 کروڑ 80 لاکھ بچے اس سے مستفید ہوں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سے پولیو ایک متنازع مسئلہ رہا ہے جس کی چند ایک وجوہات ہیں وطن عزیز کے عوام پولیو مہم میں شریک مرد و زن کو عالمی تحریکوں کا ایجنٹ گردانتے ہیں ۔

یہ مسئلہ اس وقت پیش آیا جب ایبٹ آباد میں رو پوش اسامہ بن لادن کی مخبری پولیو ٹیم کے ذریعہ سے کی گئی، اس کے علاوہ بھی پولیو ویکسین ایک صہیونی کمپنی کی پروڈکٹ ہے یہ خدشات سامنے آئے ہیں کہ پولیو ویکسین میں دانستہ طور پر پولیو وائرس شامل کئے جاتے ہیں تا کہ مسلم ممالک کی آئندہ نسلوں کو جسمانی طور پر معذور اور اپاہج کیا جا سکے سن 2000ء میں اسی خدشہ کی بدولت امریکہ نے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے پولیو ویکسین پر پابندی عائد کر دی۔

(جاری ہے)

 صہیونی کمپنی اسرائیلی ہونے کے باوجود آج تک اسرائیل میں بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے 1988ء میں پولیو کا عالمی سطح پر خاتمے کا پروگرام شروع کیا گیا جس میں تمام ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تقریبا 22 برس قبل 1 دن میں 1000 بچے اس مہلک مرض کا شکار ہو جاتے تھے اسی مہم کے نتیجہ میں یہ تعداد 2012ء میں صرف 223 رہ گئے اور وطن عزیز میں 2015ء میں یہ تعداد 15 2016ء میں 20 جبکہ 2017ء میں 1 رہ گئی ۔

اس وقت بھی نائجیریا افغانستان کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں اس مہلک بیماری کے اثرات باقی ہیں رواں برس سیوریج کے پانی پر ایک تحقیق کی گئی اور یہ بات سامنے آئی کہ ملک کے 12 بڑے شہروں میں پولیو وائرس موجود ہے ۔پولیو کا کوئی علاج نہیں اسے صرف حفاظتی اقدامات سے روکا جا سکتا ہے مہم کے پہلے دن ہی پشاور اور دیگر مقامات پر ان قطروں کی وجہ سے چند واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے حکومت اور عوام ہر دو کی طرف سے ناروا رویہ سامنے آیاحکومت کو چاہیے تھا کے اگر ایسا معاملہ پیش آ گیا ہے تو عوام کے مزاج کو سمجھتے ہوئے مہم کو روک دیا جاتا اور ان واقعات کی تحقیق کی جاتی اور جلد از جلد اصلی ناسور سامنے لائے جاتے لیکن ہوا اس کے برعکس مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

حکومت کی اس نا اہلی کے سبب ملک کے متعدد مقامات پر پولیو ٹیم اور عوام کا باہمی تکرار اور لڑائی جھگڑا سامنے آیا حتی کہ کئی افراد ہسپتال اور کئی دنیا فانی سے کوچ کر گئے اکثر والدین نے اپنے نونہالوں کو قطرے پلوانے سے ہی انکار کر دیا جس سے ظاہر ہے حکومت اپنے ہدف کو نہیں پہنچ سکتی حکومت وقت کو چاہیے فی الوقت اس مہم کو روک دے اور جذبات سے کام نہ لے بلکہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرے اور پولیو وائرس کے نقصانات سے آگاہ کرے اور پیش آنے والے واقعات کی وضاحت کرے اگر واقعی ایسا کچھ ہے تو عوام کو بچنے کی تلقین کرے اگر نہی تو لوگوں کو اعتماد میں لے کر دوبارہ اس مہم کاباقاعدہ اور منظم انداز سے آغاز کرے اور ہر فرد اور شہری پر اس چیز کو لازم اور ضروری قرار دے کہ حکومت وقت کی طرف سے آپ کو یہ قطرے پلوانا ضروری ہیں اور وہ ہر طرح سے آپ کی محافظ اور ذمہ دار ہے بصورت دیگر بھاری بھرکم جرمانہ اور سزا ہو گی پھر اس قانون پر عملا اقدام بھی کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے اس سے مستفید ہو سکیں یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب حکومت اپنے دعوہ میں سچی اور وہ ملک بھر کے عوام کو صحت و عافیت سے دیکھنا چاہتی ہے
 کیونکہ عوام بھی حق بجانب ہے کون چاہتا ہے ان کے نو نہالوں پر ذرہ بھی کوئی مصیبت آئی حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی کا اظہار کرے اور اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کے ل? مذکورہ اقدامات پر عمل پیرا ہو وگرنہ یہ باہمی تصادم کشیدہ حالات کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس سے قومی اور کئی ملکی جانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :