عمران خان کا وزیر اعظم بنانا معجزہ

منگل 29 اگست 2017

Afzal Sayal

افضل سیال

بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست بادی النظر میں منافقت کا روپ دھار چکی ،سیاست اور حکمرانی کا زیادہ تر انحصار جھوٹ ، وعدہ خلافی،منافقت پر اکتفا بن چکا ۔ پوچھنے پر جواب ملتا ہے ملکی مفادات کی خاطر کبھی کبھی جھوٹ بولنا اور منافقت ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے عوام سیاست دانوں ،جرنیلوں، ججز۔ بیوروکریٹ کے اقدامات ، فیصلوں اور تقریروں پر یقین نہیں کرتے ،اب یہ ناسور صحافت میں بھی اپنی جگہ بناتا جا رہا ہے اور عوام کی بڑی اکثریت کسی بھی نیوز پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے سے اجتناب کرتی ہے،اس تفن ذدہ ماحول نے سچ اور جھوٹ کی پہچان کو مشکل ترین بنا دیا ہے،صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آج ججز کے فیصلے ہوں ، وزیر اعظم کا قوم سے یا قومی اسمبلی سے خطاب ہو،جرنیلوں کی دہشت گردی ختم کرنے کا دعوی ہو کسی پر 100فیصد تو کیا 50فیصد بھی یقین کرنے سے یہ قوم قاصر ہے ۔

(جاری ہے)

۔مشرف یا پیپلز پارٹی کا گذشتہ دور پر نظر ڈالیں تو ڈروان حملوں پر یہ مذامت کرتے تھے اور حملے ملکی سالمیت کے خلاف کا بیان بڑھ چڑھ کر دیتے لیکن اندر کھاتے امریکہ کے ساتھ یہ معائدہ تھا کہ ہم مذامت کرتے رہیں گے آپ ڈروان برساتے جائیں ، یہ ایک مثال دی ہے پاکستانی قوم کے ساتھ ان حکمرانوں کی منافقت کی ،، ورنہ لسٹ تو اتنی لمبی ہے کہ پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے صرف منافقت پر۔

۔۔۔۔۔۔ المیہ ہے جھوٹ منافقت کرپشن وعدہ خلافی ہمارے خون ہماری پالیسی ،ہمارے نظریے میں رس بس چکی اور اب ہم اس جرم کو اب جرم ہی نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹرمپ کی حالیہ پاکستان دشمن تقریر کے بعد سی این این نے پاکستانی سیاستدانوں سے ان کا ردعمل جاننے کی غرض سے سب سے پہلے وزیراعظم شائدخاقان عباسی سے رابطہ کیا، وہ کنی کترا گیا۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف سے رابطہ کیا، اس کا موبائل بند ملا، سابق وزیراعظم نوازشریف سے ردعمل جاننے کی کوشش کی، اس نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس نے ابھی تک ٹرمپ کی تقریر ' سنی ' نہیں اس لئے ردعمل نہیں دے سکتا۔

آصف زرداری سے رابطہ کرنے پر اس کے نمائیندے نے اصرار کیا زرداری صاحب کا اگر ایک گھنٹے کیلئے سی این این پر انٹرویو رکھا جائے تو وہ اگلے مہینے تیار ہوسکتے ہیں۔۔۔۔ یہ سب لیڈران نے ذاتی مفاد کو ملک کے مفادات سے بالا تر رکھا اور موقف دینے سے بھاگ نکلے کہیں امریکہ بہادر ناراض نہ ہوجائے کیونکہ انکو معلوم ہے کے پاکستان میں امریکہ بہادر کی منظوری کے بغیر حکومت میں آنا ناممکن ہے کیونکہ امریکہ بہادر ہی ہمارے ملک کے مقتدر حلقوں کو رام کرنے میں مہارت رکھتا ہےامریکہ کی ناراضگی ہماری سیاسی موت ہے ۔

۔۔۔ دوسری طرف جب انہوں نےچئیرمین تحریک انصاف عمران خان سے رابطہ کیا تو اس نے بغیر کسی تیاری کے فوراً انٹرویو کی حامی بھرلی۔ 7 منٹ کے اس انٹرویو میں عمران خان نے امریکی افغان پالیسی اور ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سوال کیا کہ کون مانے گا کہ ڈیڑھ لاکھ نیٹو اور امریکی فوج جو دنیا کا بہترین اسلحے اور وسائل رکھنے کے باوجود پاکستان میں خفیہ پناہ گزین 1500 دہشتگردوں سےشکست کھا گئی اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے ٹرمپ کی پالیسی میں ۔

۔۔ عمران خان کا یہ سوال امریکی میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور سی این این ، بی بی سی،فوکس نیوز، الجیزیرہ ، اور امریکہ سمیت دنیا بھر کا اینٹی ٹرمپ میڈیا عمران خان کے اس انٹرویو کو لیکرمسلسل ٹرمپ کی درگت بنا رہا ہے آپ یوٹیوب پر سرچ کریں تو آپ کو عمران خان کے بے شمار ایسے انٹرویو مل جائیں گے جو انہوں نے سی این این، بی بی سی، فوکس نیوز اور بھارتی چینلز کو لائیو دیئے ہوں گے جن میں انہوں نے پاکستانی مؤقف کی کھل کر وضاحت کی۔

اور پاکستان کا مقدمہ بے خوف و خطرلڑا جبکہ دوسری جانب نوازشریف اور زرداری ہمیشہ ' اسٹیبلشمنٹ ' کی سازشوں کا بہانہ لگا کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ نوازشریف، زرداری، اسفندیار ولی، اور فضل الرحمان کو کیا اسٹیبلشمنٹ روکتی ہے کہ وہ انٹرنیشنل میڈیا پر آ کر بھارت اور امریکی پالیسیوں کی مذمت نہ کریں؟
آخر کیا وجہ ہے کہ نوازشریف اور زرداری نے آج تک کبھی غیرملکی میڈیا پر آکر امریکی پالیسی پر تنقید نہیں کی، بھارتی جارحیت کی مذمت نہیں کی؟ کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے یا پھر یہ سمجھا جائے کے اپنی جائیدادیں کاروبار مفادات کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امریکہ بہادر کے وفادارہونے کا ثبوت دیتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے سب زیادہ ڈالر مشرف کے دور میں آئے اور کچھ رقم زرداری دور میں آئی لیکن اس رقم کا کوئی براراست قوم کوتوکوئی فائدہ نہیں ہوا اب حساب دینے کا وقت آیا ہے تو کہاں ہے آمر پرویز مشرف۔

کہاں ہے زرداری اب ان کی زبانیں بند کیوں ہوگئی ہیں قوم نے تو ایک آمر مشرف کے فیصلہ کی قیمت 70ہزار جانیں اور کئی ارب ڈالر لگا کر ادا کی اوراسکی اقساط جاری ہیں ۔۔ دہشت گردی کی جنگ تو امریکہ کی جنگ تھی جسکوحکمرانوں کی ناہلی کی وجہ سے زبردستی پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا فوجی آمرمشرف کےغلط فیصلہ کی یہ غریب قوم آج بھی خمیازہ بھگت رہی ہےاور پتہ نہیں کب تک بھگتے گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھوٹ منافقت ذاتی مفادات پرمبنی ملکی سیاست میں عمران خان کا وزیر اعظم بنانا معجزہ سے کم نہیں ہوگا امریکی سفیر ایک مرتبہ عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالہ پہنچے تو خان اپنے کتے کے ساتھ کھلیتے رہے جس وجہ سے گورے بابو کو 20منٹ انتظار کرنا پڑا ملاقات شروع ہوئی تو سفیر صاحب نے کہا کہ اگر آپکی حکومت آئی تو امریکہ کی جاری پالیسی کے بارے میں آپکا کیا لاعمل ہوگا ڈرون حملوں سمیت ہماری تمام جاری پالیسی کی حمایت کریں گے ؟؟ تو خان نے کہا آپ ڈرون کی بات کرتے ہیں اگر باڈر پار سے پتھر بھی آیا تو اسکا موثر جواب دیا جائے گا خان نے بسکٹ سے اسکی تواضع کی اور گاڑی تک چھوڑنے بھی نہیں گئے جسکے بعد وہ جاتی عمرہ میاں نواز شریف سے ملنے گیا تو میاں صاحب کو بتایا گیا گورے سفیر کو مکڈونلڈ بہت پسند ہے میاں صاحب نے امریکی سفیر کو خود ویلکم کیا اورمکڈونلڈ کا پورا کیبن جاتی عمرہ میں لگوا کر خوب آوٗ بھگت کی تمام امریکی پالیسی کی حمایت کی یقین دہانی کروائی اور خود گاڑی تک چھوڑ کر گئے۔

۔ جسکے بعد موصوف نے اپنی فائنل رپورٹ میں لکھا کہ عمران خان جیسا لیڈر اپنی ملک کی بات کرتا ہے اسکو امریکہ سے کوئی سروکار نہیں وہ صرف اپنی ملک کی عوام کی سوچتا ہے اب بتاہیں ایسےخود غرض اور بے باک شخص کو کون وزیر اعظم بننے دیگا ۔۔ عمران خان تمام سیاست دانوں ، ججز جرنیلوں اور ہرملکی طاقتورکے احتساب کی بات کرتا ہے ایسا لیڈر امریکہ سمیت ملک کے مقتدر حلقوں کو کسی صورت منظور نہیں۔

۔۔جو لوگ عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کا مہرہ قرار دیتے ہیں میرے نزدیک وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور صرف سیاسی پوائنٹ سیکورنگ کرتے ہیں کیونکہ عمران کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کا طاقتور طبقہ ہے ۔۔ قانون کی حکمرانی اور سب کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے عمران خان کو کون وزیر اعظم بننے دیگا ؟؟؟ ۔۔۔۔ عمران خان کا وزیراعظم بنانا اس صدی کا سب سے بڑا معجزہ ہوگا ۔۔۔۔۔۔البتہ ایسا ہونا نا ممکنات میں سے ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :