ملک صاحب جی!

جمعہ 18 اکتوبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

ہمارے ملک صاحب واقعی ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔ماشاء اللہ سے پولیٹیکل سائنس میں ایم فل ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ پولیٹیکل سائنس یاکسی بھی مضمون بھی ایم فل کی ڈگری پکوڑے بیچ کر تو نہیں حاصل کی جاتی۔ہمارے ملک صاحب الحمداللہ علم کا سمندر ہیں اور سمندر کی مانند ہی ان کے علم سمندر میں بھی اکثر بیشتر طوفان آتے ہی رہتے ہیں اور اکثر حضرات اس طوفان کے بھنور میں پھنس ہی جاتے ہیں۔

ملک صاحب ایک لاجواب حافظے کے مالک ہیں اور وقتاَ فوقتاَ اپنے لاجواب حافظے اور اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کا کوئی ْبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ملک صاحب کو بھی بندہ کی طرح ہی ایک بُری عادت کچھ بھی نہ ماننے اور خُود کو افضل ثابت کرنے کی بھی ہیں ۔بندہ کی طرح ہی ملک صاحب بھی اپنی بڑ ائی جمانے کی خاطر طلباء کو سوالوں میں گھیر لیتے ہیں اور پھر خود سوال اور خود جواب دے کر دوسروں کو گنوار اور جاہل ثابت کر دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


ملک صاحب کا ذکر بندہ کو گزشتہ رات کی محفل کے بعد بار بار یاد آرہا ہے۔گزشتہ رات کی محفل میں ملک صاحب نے سوال جواب کے ایک طویل دورانیے بعد آخر کار پھر ثابت کردیا کہ عصر حاضر میں بندہ بمع اس کے ہم جماعت علم کے حقیقی خزانے سے کوسوں دور ہیں اور جس ادارے میں اور جس پروگرام میں زیر تعلیم ہیں اس کے نام پر دھبہ ہیں۔ملک صاحب اگر صرف یہاں تک رہتے تو بندہ کو اس پر قطعی کوئی اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ بندہ تو ہمیشہ ہر موقع پر اپنی کم علمی اور کم فہمی کا اظہار کرتا آیا ہے اور ہمیشہ خود کو جاہل اور گنوار ہی تصور کرتا ہے اور آج بھی اس کا بر ملا اظہار کر رہا ہے۔

ملک صاحب پولیٹیکل سائنس میں ایم فل ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت انگریزی اور اردو زبان و ادب کے قواعد سے بھی بھرپور واقف ہیں ۔رات ملک صاحب کی بدولت بند ہ کو پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ میر تقی میر اور مرزا غالب بھی تصور وحدت الوجودکے شیدائی تھے اور ان شاعر حضرات کی شاعری بھی فلسفہ وحدت الوجود اور فلسفہ ہمہ اوست سے بھرپور ہے اور بندہ کو بھی یہ بھی معلوم ہوا کہ بندہ کا علم کتنا ناقص ہے کہ بندہ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ویلم کون تھا اور اس کے چاچے ،مامے کا کیا نام تھا ؟ اور سیکسن کونسی جگہ ہے اور اس کا طول عرض اور طول بلد کونسا ہے؟،اشعار کی تشریح کے معاملے میں تو بندہ کا اللہ ہی حافظ ہے ۔

ہمارے ملک صاحب علم و دانش کا سمندر ہیں اور انھیں جواب دینے میں تو صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔اب یہ دو صورتیں کونسی ہوسکتی ہیں ان کا تو ہمیں بھی نہیں معلوم،کیونکہ ہم تو ویسے ہی گنوار ٹہرے، لیکن نجانے کیوں ہمیں اس پر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے ۔ایک مرتبہ ایک گاؤں میں فوج بھرتی کے لیے کیمپ لگا ۔اس گاؤ ں میں رہنے والے ایک دوست نے دوسرے سے کہا "یار فوج میں بھرتی آئی ہے،آؤ فوج میں بھرتی ہونے چلیں "۔

دوسرے دوست نے جواب دیا کہ نہیں یار "مجھے شرم آتی ہے"۔پہلا دوست بڑا حیران ہو ااور بولا کہ فوج میں بھرتی ہونے میں کیسی شرم؟۔دوسرے دوست نے فوراَ جواب دیا کہ"دیکھو یار اگر ہم بھرتی ہوگئے تو دو باتیں ہونگی ،یا تو ہم دوڑ لگائیں گیں یا ٹریننگ کریں گیں ۔اگر ہم نے دوڑ لگائی تو ٹھیک ہے اور اگر ٹریننگ کی تو پھر دو باتیں ہوسکتی ہیں یا تو ہمیں یونٹ میں رکھیں گیں یا پھر بارڈر پر بھیج دیں گیں ۔

یونٹ میں رکھیں گیں تو پھر بھی ٹھیک ہے ،اگر بارڈر پر بھیج دیا تو پھر دو باتیں ہونگی ،یا توامن ہو گا یا پھر جنگ ہوگی ۔اب اگر امن رہا تو ٹھیک ہے اور اگر جنگ ہوئی تو پھر دو باتیں ہونگی۔ یا وہ ہمیں مار دینگے یا ہم انھیں مار دینگے ۔ہم انھیں مار دیں تو پھر بھی ٹھیک ہے ،اگر وہ ہمیں مار دینگے تو پھر دو باتیں ہونگی،یا توہماری لاشیں ہماری فوج اٹھا کر لے جائے گی یا دشمن کی فوج۔

اگر ہماری لاشیں ہماری فوج اٹھا کر لے گئی تو ٹھیک ہے۔اگر دشمن کی فوج اٹھا کر لے گئی تو پھر دو باتیں ہونگی،یا تو دفنا دیں گیں تا جنگل میں پھینک دیں گیں۔۱گر دفنا دیں تو ٹھیک ہے اوراگر جنگل میں پھینک دی تو پھرر دو باتیں ہونگی۔یا تو اسے جنگلی درندے کھائے گیں یا پھر کیڑے مکوڑے۔اگر کیڑے مکوڑے کھا لیں تو پھر بھی ٹھیک اگر درندے کھا لیں تو پھر دو باتیں ہونگیں ،یا تو ہماری باقیات زمین میں دب جائیں گیں یا پھر کمپنیوں والے لے جائیں گیں۔

اگر زمین میں دب گئی تو پھر بھی ٹھیک ہے، لیکن اگر کمپنی والے گئے ،تو پھر تو باتیں ہونگیں یا تو اس سے کپڑے دھونے والا صابن بنائے گیں یا پھر نہانے والا صابن۔اگر کپڑے دھونے والا صابن بنا لیں تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن اگر کپڑے دھونے ولا صابن نہ بنا تو پھر ایک اور بات ہوگی ۔وہ اس سے نہانے والا صابن بنائیں گیں اور پھر لوگ اس سے دھڑا دھڑ نہائیں گیں اور اسی چیز سے مجھے شرم آتی ہی"۔


آج ملک میں ہر طرف مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی گونج ہے ۔حکومتی وزیر اور مشیر مولانا کے کردار اور اُن کی سابقہ خدمات پر روزانہ کی بنیاد پر اپنی نفیس رائے دے رہے ہیں،قوم کو دھرنے کے نقصانات بتائے جارہے ہیں،لیکن ،لیکن،لیکن نجانے میں کیوں یہاں پر سیاست کولے آیا؟ہاں !یاد آیا ،ممکن ہے شاید بندہ بھی قارعین پر اپنی لفاظی اور اپنی معلومات کی دھاک بٹھانا چاہتا ہو۔

ہاں تو یاد آیا ہم تو اوپر ملک صاحب کی بات کر رہے تھے ،کیا بات کررہے تھے ؟وہ کیا تھا ؟ وہ تو فی الحال مجھے بھی یاد نہیں آرہا ۔ہاں یاد آیا !ملک صاحب ایک عظیم انسان ہیں اور میں بھی بڑا ہو کر انشاء اللہ ملک صاحب بنوگا اور مجھے امید ہے کہ میرے قارعین بھی ایک دن انشاء اللہ ملک صاحب ضرور بنے گیں۔ایک گھسا پٹا سا ایک شعر آخر میں ہمارے اپنے نام:
سچائی چھپ نہیں بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آ نہیں سکتی کاغذ کے پھولوں سے
واہ ، واہ واہ ،واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :