”پھلا ں دے رنگ کالے“

ہفتہ 8 جون 2019

Ahmed Khan

احمد خان

آج سے اریب قریب دو دہا ئی قبل تک آزادی اظہار کا ہو سو چر چا تھا ، برقی ذرائع ابلاغ تو حکومت کے زیر کمان تھے البتہ طباعتی ذرائع ابلاغ سے وابستہ جی دار صحافی آزادی اظہار کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہے بغیر لگی لپٹی کہنے کے خو بو والے سرخیل اخبار نویسوں کے ساتھ کیا کیا ہو تا رہا ، کو چہ صحافت کے مکینوں کو کن کن مصائب کا سامنا کر نا پڑ ا پو ری جزیات کے ساتھ طباعتی صحافت کی ” نازک تاریخ “ آپ کے سامنے کھلی پڑ ی ہے ، صحافت پر کڑ ے وقتوں میں استعارے میں بات کہنے کو بھی بہا دری سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔

 پٹھا نے خان کی مشہورزمانہ کا فی ” پھلا ں دے رنگ کا لے “ تو سر پھر ے اخبارنویسوں کی دل کی آواز بن گئی تھی ، مشرف کے دور میں نجی بر قی ذرائع ابلاغ کی آمد کے بعد آزادی اظہار کے معانی ومفہوم بدل گئے ، نجی برقی ذرا ئع ابلا غ نے آزادی صحافت کے آڑ میں آزادی اظہار کے باب میں وہ کا رنامے سر انجام دینے شروع کیے کہ سنجیدہ طبقات کو الم غلم اور ” من پسند آزادی “ ایک آنکھ نہ بھا ئی ، صائب اور رائے عامہ پر اثر انداز ہو نے والے حلقوں میں نجی ذرائع ابلاغ کی آزادی ا ظہار کی نئی جہت زیر بحث تھی کہ سما جی رابطوں کے ذریعوں نے پاکستانی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔

(جاری ہے)

 فیس بک ، وٹس اپ اور انسٹا گرام جیسی سماجی ذرائع ابلا غ نے آزادی اظہار کے میدان میں وہ اودھم مچا دیا کہ احباب بر قی ذرا ئع بلا غ کی ” چھلا نگیں “ بھول ہی گئے ، اپنے مخالفین کو لتاڑنا ہے تو سما جی رابطوں کے کسی ذریعے کو استعمال میں لا یے اور اپنے مخالف کا تیاپانچہ گھر بیٹھے کر دیجیے، کسی سیاسی رہبر کا چہر ہ بد قسمتی سے آپ کو اچھا نہیں لگتا تو سما جی رابطوں کے ذریعے اس پر چڑ ھ دو ڑیے ، اپنے مخالفین کو سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم سے کس کس طر ح ذلیل کیا جا تا ہے ، کس پیرائے اور کن الفاظ میں اپنے مخالفین کی خبر لی جاتی ہے توبہ ہی بھلی ، معلو م یہ کر نا ہے ، کیا جو آپ کے دل میں آئے اسے بیاں کر دینا ہی آزادی اظہار ہے ۔

 کیا اپنے سیاسی مخالفین کی نازیبا اطوار سے درگت بنا لینے کا نام آزادی اظہار ہے ، کیا وطن عزیز اور وطن عزیز کے اداروں کے خلاف مہم چلا نے کا نام آزادی اظہار ہے ، بس ذرا ساکو ئی واقعہ رونما ہو نے دیجیے ، پھر سما جی رابطوں پر تشر یف فر ماسقراتوں ، بقراتوں اور افلاطونوں کا ہنگام ملا حظہ فر ما ئیے ، بجا کہ آزادی اظہار ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، ہر ریاست کا فر ض ہے کہ آزادی اظہار کو یقینی بنا ئے ، مگر یہ کہاں کی آزادی گفتار و بیاں ہے کہ دوسروں کی پگڑیاں سر بازار اچھالی جا ئیں ۔

 یہ کہاں کی شخصی آزادی ہے کہ جھو ٹ اور سچ کو گڈ مڈ کر کے اپنے مخالفین کو روندا جا ئے ، سماجی رابطوں پر بات سیاسی اور مذہبی مخالفت سے چلی اور اب نو بت ملک کے خلاف سر عام زہر اگلنے تک جا پہنچی ، بھلا آپ کو نہیں معلوم کہ پاک فوج کے خلاف ایک مخصوص گر وہ کب سے سرگرم ہے ، مگر مجال ہے کہ حکو متی ادارے اس کا نوٹس لیں ، طر فہ تماشا ملا حظہ کیجئے کہ خیرسے اب اس گروہ کے طرف دار ہما ری سیاسی جماعتوں کے رہبر بھی بن گئے ، اصل نکتہ کیا ہے ۔

 اگر ابتدا میں سماجی رابطوں کے استعمال کے بارے میں حکومت کو ئی ضابطہ قانون لا گو کر تی ، قوی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آج سما جی ذرا ئع ابلاغ پر ہمیں اوٹ پٹانگ قسم کے حالات کا سامنا نہ کر نا پڑ تا ، مگر کیا کہیے حکومتوں کی چشم پو شی کے بدولت سماجی ذرائع ابلا غ پر بے اعتدالی عام ہو چکی ، چلیے دیر سے ہی سہی مگر اب حکومت وقت اس فتنے کو روکنے کے لیے کچھ کر گزرے ، مکر ر عر ض ہے اگر کسی کو دوسرے کے نظریات سے اختلاف ہے۔

 حضور سو بار اختلاف کیجیے ، اپنے مخالف کے نظریات ، اقدامات اور پالیسیوں کی خوب مخالفت کیجیے مگر اخلاقیات کے دائر ے میں اور ٹھوس دلا ئل سے ، ہو مگر کیارہا ہے ، زیادہ تر من گھڑ ت اور نا زیبا الفاظ سے اپنے مخالفین کی کلا س لی جا رہی ہے ، ان کی شکلیں بگاڑ بگاڑ کر ان سے اختلاف کا ظہار وطیرہ بن چکا، کیا یہ آزادی اظہار ہے ، کیا زند ہ قومیں آزادی کا استعمال اس طر ح سے کیا کر تی ہیں ، ایسا نہیں ہے ، مہذب اقوام میں آزادی اظہار کے قرینے ہوا کر تے ہیں ، مخالفت میں اخلاق اور ادب کا دامن نہیں چھو ڑا جا تا ، ملکی سلا متی کے خلاف غیروں کا آلہ کا ر کو ئی محب وطن شہری نہیں بنا کر تا ۔

 بدقسمتی سے یہ چلن صرف ہما رے معاشرے میں چل سو چل ہے کہ کھا تے بھی اس ملک کا ہیں اور اس کی جڑ یں بھی اپنے ہا تھوں کھوکھلی کر تے ہیں ، علم سیاسیات کا مشہور مقولہ ہے کہ جہاں آپ کی ناک ختم ہوتی ہے وہاں سے دوسرے کی آزادی شر وع ہو تی ہے سو بہتر ہے اپنی ناک ناک کا خیال کیجیے دوسرے آپ کی آزادی کے حق کا خیال کر یں گے ، اگر بطور قوم ہم ایسا نہیں کر یں گے کل کلا ں پھر سے ”پھلا ں دے رنگ کا لے “ ہما را مقدر بن سکتا ہے ، قانون قدرت ہے کہ جس نعمت کی قدر نہ کی جا ئے وہ چھن جا یا کر تی ہے ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :