ذکر خوباں ایک افسر رعنا کا

بدھ 26 فروری 2020

Ahmed Khan

احمد خان

کسی بھی ضلع کے باسیوں میں آسانیاں بانٹنے میں متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کا کلید ی کر دار ہو ا کرتا ہے ، قیام پاکستان کے بعد بیسیوں ڈپٹی کمشنر آئے اور گئے مگر خال خال ہی ڈپٹی کمشنر ز کے نام ہیں جنہو ں نے عوام کے دلوں میں جگہ بنا ئی ، ساٹھ کی دہا ئی میں سید خالد محمود ڈپٹی کمشنر اٹک رہے ،فرائض منصبی نبھانے کے حوالے سے مو صوف نے خوب شہرت کما ئی خود کو صرف اپنے دفتر تک محدود نہیں رکھا بلکہ خلق خدا کی بھلا ئی کے لیے خوب سر گر م رہے ، کمپنی باغ حال جنا ح پارک کی تز ہین و آرائش کا سہرا ان ہی کے سر جا تا ہے ، اٹک آئے خاموشی سے تھے مگر جب گئے تو خوب نیک نامی کما کر گئے ، غلق خدا کا بھلا چا ہنے والے ایک ڈپٹی کمشنر ابو شمیم عارف تھے ، کیاکما ل کے افسر تھے بالخصوص دفتری امور نمٹانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ، غلط فائل کی تو گو یا بو سونگ لیتے تھے ،بغیر دیکھے اپنے سٹاف کو طلب کر تے اور غلط فائل کو فوراً اپنی میز سے ”نو دو گیا رہ “ کر نے کے احکامات صادر فر ما تے ، اسی کی دہا ئی میں شاہد رفیع کا بطور ڈپٹی کمشنر خاصا شہر ہ رہا ، خلق خدا کے مسائل کے حل کے حوالے سے انہو ں نے بھی اچھی بھلی شہرت کما ئی ، اب بڑے عر صے بعد اٹک کے با سیوں کو علی حنان قمر جیسے جوان رعنا ڈپٹی کمشنر ملے ہیں ، علی حنا ن قمر بلکہ آئے چھا گئے ، ، فرائض منصبی کی ادائیگی کے حوالے سے علی حنان قمر نے انتہا ئی قلیل وقت میں خلق خدا میں نیک نامی کما ئی اور خوب کما ئی ، عام طور پر دیکھا یہ گیا کہ ڈپٹی کمشنر خود کو اپنے دفتر تک محدود رکھتے ہیں ، بہت ہوا تو کسی سر کاری تقریب کو شرف بخشا اور یہ جا وہ جا ، علی حنان قمر مگر اس کے بالکل بر عکس ہیں نہ صرف اپنے دفتری امور کو جا نفشانی سے نمٹانے کے ہنر سے لیس ہیں بلکہ تمام تحصیلوں پر بھی ” عقابی نگاہ “ رکھے ہو ئے ہیں ، سوئے اتفاق کہیے کہ لگے دنوں تواتر کے ساتھ اٹک کے کئی تحصیلوں کی گر د چھا نی ، ایک تحصیل میں عوامی مفاد کے لحاظ سے ایک مسئلہ عر صہ دراز سے وہاں کے شہر یوں کے لیے ” وبال جاں “ بنا ہوا تھا ، حیرانی ہو ئی کہ وہ عوامی مسئلہ حل نظر آیا ، اپنے میز بان سے پو چھا کہ یہ ” ٹیرھی کھیر “ سیدھی کیسے ہو گئی ، جواباً بولے نئے ڈی سی صاحب کمال کے ہیں نہ صرف خود گا ہے گاہے تحصیل کا دورہ کر تے رہتے ہیں بلکہ یہا ں کے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کو بھی متحرک کیے ہو ئے ہیں سو تحصیل میں عوامی مفاد کے حوالے سے طویل عر صہ سے حل طلب معاملات ” ناک کی سیدھ “ میں ہو گئے ، عین اسی طر ح ایک اور پس ما ندہ تحصیل جا نے کا اتفاق ہوا وہاں بھی ” انہو نی “ دیکھی ، ایک ایسی تحصیل جسے انتظامی حوالے سے ” یتیم “ گردانا جا تا ہے اس تحصیل میں بھی مقامی انتظامیہ نہایت متحرک بلکہ صفائی کے حوالے سے تو متعلقہ تحٓصیل ” چمک “ رہی تھی ، سوال پھر وہی تھا کہ حالات نے مثبت انگرائی کیو ں کر لی ، مقامی اہل ہنر کا جواب تھا ، ڈپٹی کمشنر کی کما ل مہر بانی ہے ورنہ ہمارا حال تو ہمیشہ سے ” یا رمن تر کی “ والا رہا ہے ، بات در اصل ہے کیا ، بلا شبہ علی حنان قمر سے سے پہلے بے شمار ڈپٹی کمشنر اٹک آتے رہے اور یہاں سے جا تے رہے ، مگر ہو تا کیا رہا ، کو ئی صاحب محض دفتری امور تک محدود رہے ، کو ئی محض ” صاحب بہادر “ بنے رہے ، کو ئی ملنساری کے وصف سے لیس تھا ، کو ئی اخلاق کا پیکر تھا ،مگر عوام کے اجتماعی مسائل کے حل میں دل چسپی کے حوالے سے علی حنان قمر اپنے پیش روؤں پر با زی لے گئے ، تھکن یا آرام نام کی چیز علی حنان قمر کے قریب سے بھی نہیں گز ری ، اعلی درجے کے متحرک علی حنان قمر اپنے دفتری امور کو بھی چابک دستی سے نمٹا تے ہیں اور ضلع کے کو نے کو نے میں بھی آپ کو نظر آئیں گے ، مو صوف کے معمولات کیا ہیں ، صبح دفترآئیں گے دفتری امور نمٹانے کے بعد کسی نہ کسی تحصیل کے لیے ” اڑان “ بھر لیتے ہیں ، واپسی پر پھر دفتر آکر جو امور”باقی ماندہ“ ہو تے ہیں انہیں ” کنا رے “ لگا کر تب گھر کی راہ لیتے ہیں ، اٹک شہر کی صفا ئی کے بارے میں اٹک کے باسی خوب جا نتے ہیں اولاً تو صفا ئی والے نظر نہیں آتے تھے ، اگر نظر آتے بھی تھے تو ان ” محلوں اور گلیوں “ میں جن کی صفائی کیے بغیر چا رہ نہ تھا ، اب بلا تقریق شہر کا کو ئی کو نا ایسا نہیں جہاں صفا ئی روزانہ بنیادوں پر نہ ہو تی ہو ، قصہ اگر ضلعی صدر مقام تک محدود ہو تا تو علی حنان قمر کی صلا حیتوں سے ہم صرف نظر کر تے ، اہم نکتہ مگر یہ ہے کہ نہ صرف ضلعی صدر مقام بلکہ تحصیل سطح تک علی حنان قمر برابر ی سطح پر توجہ دے رہے ہیں ، مکررعر ض ہے کہ خلق خداکے لیے آسانیاں پیدا کر نے میں ڈپٹی کمشنر اور اے سی صاحبان کا کلیدی کردا ر ہوا کر تا ہے ، یقین نہ آئے تو ایک سچا واقعہ سن لیجئے ، دو سگے بھا ئیوں میں آدھ مرلے زمین پر بات ” تو تو میں میں “ سے گو لی بندوق تک جاپہنچی ، کسی سیانے ایک بھا ئی کو مشورہ دیا کہ داد رسی کے لیے ڈی سی صاحب کو در خواست دے دیجئے ، جھٹ سے اس نے ڈی سی صاحب کو داد رسی کے لیے در خواست دے دی ، ڈی سی صاحب نے دونوں بھا ئیوں کو بلا یا ، ایک سے پو چھا آپ فلا ں بن فلا ں ہیں ، بو لے جی جناب ، دوسرے بھا ئی سے بھی گو یا ہو ئے آپ فلاں بن فلا ں ہیں ، بو لے جی جناب ہم سگے بھا ئی ہیں ، ڈی سی صاحب نے حکم صادر کیا ، آپ دونوں سگے بھا ئی ہیں آپ کو شر م نہیں آتی کہ آدھ مر لے کے لیے ایک دوسرے کے جان کے دشمن بنے ہو ئے ہیں ، جا ئیے ایک ہفتہ کا وقت دیتا ہو ں اگر باہم رضامندی سے فیصلہ نہ کیاتو دونوں کا مقدر جیل ہو گی ، بس کیا تھا ڈی سی صاحب کے دفتر سے نکلنے کی دیر تھی کہ دونوں بھا ئی یک جان ہو گئے ، مد عا کیا ہے ، اگر ڈپٹی کمشنر اور ان کے ماتحت نیک نیتی اور دل جمعی سے خلق خدا کی بھلا ئی کا درد اپنے دل میں رکھیں تو رعا یا کے معمولی معمولی ” قضیے“ تھا نہ کچہری جا ئے بغیر حل ہو جا تے ہیں ،مد عا کیا ہے ، بس یہ کہ علی حنان قمر جیسے ڈپٹی کمشنر ہر ضلع کو ملیں ، دیکھیے پھر کیسے عوام کے مسائل حل ہو تے ہیں اور کیسے ہر ضلع ترقی کے راہ پر گا مزن ہو تا ہے ، شا ید علی حنان قمر جیسے افسران کے بارے میں شاعر نے کہا ہے
 وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
 جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :