” حضور !اپنے فیصلوں میں حکمت کا چورن شامل کیجئے “

جمعہ 3 اپریل 2020

Ahmed Khan

احمد خان

حکمرانوں کی لیاقت کا دراک بحرانوں میں ہوا کر تا ہے ، حکمرانوں کی تدبر اور حکمت سے قومیں بڑے سے بڑے بحران سے کامرانی سے نکل جا یا کر تی ہیں ، کو ئی بھی قومی بحران در اصل حکمران طبقے کا کڑا امتحاں ہوا کر تا ہے ، عوام کے دکھ درد سے مالا مال حکمران کسی بھی قومی بحران میں سینہ تان کرکھڑ ے ہو جایا کر تے ہیں نہ صرف یہ کہ کھٹن حالات میں قوم کی ڈھا رس بندھا تے ہیں بلکہ حسن تدبیر سے اپنی قوم کو مشکل سے بھی نکال لیتے ہیں ، یاد رکھنے والی بات کیا ہے ، کسی بھی قومی بحران میں حکمرانوں کے قوت فیصلے کی خاصیت کلیدی کردار ادا کر تی ہے ، حکمرانوں کے بر محل اور بر وقت فیصلوں سے خلق خدا کے سر پر آیا بحران با آسانی ٹل جا یا کر تا ہے ، ہاں مگر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو پھر قومیں بحرانوں میں پھنس کر نست و نا بود ہو جا یا کر تی ہیں ، حاضر دنوں میں وطن عزیز بھی کو رونا کے بلا سے نبر د آزما ہے ، خاص طور پر متوسط اور غریب طبقے کی کو رونا کے ہاتھوں چیخیں نکل گئیں ، عملا ً صورت حال کیا ہے ، خلق خدا کی نظریں حکمرانوں پر جمی ہیں کہ اس قدرتی آفت میں حکمران پنی رعایا کے لیے کیا احسن قدم اٹھا تے ہیں ، عوام کی زند گیوں کو سہل بنا نے کے لیے حکومت کن پالیسیوں کا نفاذ کر تی ہے ، اوپر کے ” مر تبے “ پر فائز مگر عملا ً لا ک ڈاؤن کے سوا ہنوز کچھ کر گزرنے سے قاصر ہیں ، کئی دن تو محض اس مخمصے میں گزر گئے ، کیا کیا جا ئے ، کیا نہ کیا جا ئے ، اگر کچھ کیا جا ئے تو کس طر ح کیا جا ئے ، دوسری جانب زمینی حقائق چیخ چیخ کیا بتلا رہے ہیں ، یو میہ اجر ت کے ذریعے روزی رو ٹی کما نے والے کو رونا سے نہیں بلکہ بھو ک سے مر نے کے قریب ہیں ، راج مزدور کا کام کاج ٹھپ ہے ، چھو ٹا تاجر پر یشان ہے کہ گھر والوں کے دال دلیے کا سوچے یا بند دکا نوں کے کرایے اور بلوں کا بندوبست کر ے ، دلچسپ قصہ ہے کیا ، لا ک ڈاؤن میں ان دکا نوں کو حکومت وقت نے تالے لگا دیے ، جن میں عام دنوں میں بھی خال خال گا ہک جا یا کرتے ہیں ، سونے کے دکا نوں میں کبھی رش دیکھا ہے ، کپڑوں کی دکا نوں میں کبھی عوام کا سیلاب امڈتے دیکھا ہے ، حجام کی دکانوں میں کبھی ” کھڑ کی تو ڑ “ رش سے واسطہ پڑا ہے ، کاپی کتابوں کی دکا نوں کے سامنے کبھی انسانوں کی قطاریں دیکھی ہیں ، بر قی آلات والی دکا نوں میں کبھی بھیڑ دیکھی ہے ، مزے کی بات کیا ہے ، حکومت وقت نے لا ک ڈاؤن کی ” برق“انہی دکا ن داروں پر ہی گرائی ہے ، زیادہ تر خرید و فروخت کا جا ئے مقام کو ن سا ہے ، سبزی اور پھل کی منڈیا ں اور دکا نیں ، مگر سبزی اور پھلو ں کی منڈ یا ں اور دکا نیں تو کھلیں پڑ ی ہیں ، کورونا سے بچا ؤ کے لیے ہماری پیاری حکومت چین کی ” ہمعصری “ کر نے کی پا لیسی پر چلنے کی آرزومند ہے ، حضور والا ! چین چین ہے ، چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے ، سب سے بڑھ کر چینی صحیح معنوں میں ایک قوم ہے ، اس کے برعکس ہم ایک ہجوم ہیں ، چین کا مرانی سے کو رونا کو شکست دینے میں کیو نکر کا میا ب ہوا ولاً وہاں بنیادی سہولیات کی فراوانی ہے دوم چینی قوم کی ہمت اور حوصلہ چین کے اصل ہتھیار ٹھہر ے ، ہمارے ہاں کیا ہے، اریب قریب ستر فیصد عوام عام دنوں میں بہ مشکل دو وقت کی رو ٹی کا ” اہتمام “ کرتی ہے ، حالیہ بحران میں ستر فیصد عوام کا کیا حال ہے ، ذرا زحمت کیجئے ، اپنے حکومتی محلات سے نکل کر عام آدمی کا بھیس بدل کر خلق خدا کی حالت زار دیکھ لیجئے اگر آپ کے دل میں رتی برابر بھی خلق خدا کا درد جاں گزیں ہوا ،آپ کو پر آسائش محلات میں نیند نہیں آئے گی ، صائب اقدام کیا ہو سکتا ہے ، جو شہر کو رونا کی آفت سے محفوظ ہیں ان میں لاک ڈاؤن ختم کیجئے ، کا روبار زندگی کو رواں کیجئے ، ہاں اس امر کا حکومتی سطح پر خاص اہتمام کیجئے کہ شہر سے کو ئی ذی رو ح نہ باہر جا سکے نہ باہر سے آسکے ، یہ پالیسی اضلاع سے تحصیل اور قصبوں تک نافذ کیجئے ، سبزی ، پھلو ں اور کر یانہ دکانوں پر انسانی بھیڑ کو قابو رکھنے کے لیے مقامی انتظامیہ کو متحرک کر لیجئے ، حکومت وقت کی اس پالیسی سے کم از کم کو ئی غربت کا مارا فاقوں سے تو نہیں مر ے گا ، سچ پو چھیے ، مخلوق خدا کا حال انتہا ئی بد حال ہے سو یو میہ اجر ت والوں کی نصیب پر لگے حکومی قفل کھو لیے ، ایسا نہ ہو کہ کو رونا سے آپ قو م کو بچا نے کے لیے لا ک ڈاؤن کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں اور غریب کی نبض افلاس کی وجہ سے ڈوب جا ئے، عام آدمی کی پر یشانی دیکھی نہیں جاتی ، مزدور مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے بد حال ہے ، نجی اداروں اور دکا نوں میں ملا زمت کر نے والے ملا زمتوں کے چھوٹ جا نے کی وجہ سے پر یشان ہیں ، گویا متوسط اور غریب طبقے کو رونا اتنا پر یشان نہیں جتنا بھو ک کے خوف سے پر یشان ہے ، اپنے حسن تد بر سے اپنی حکمت اور دانائی سے قوم کو اس بد حالی سے نکا لنے کی سبیل کیجئے، دیر نہ کیجئے جو بھی کر نا ہے جلدی کیجئے کہیں دیر نہ ہو جا ئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :