کروڑوں دلوں کی دھڑ کن ادب شنا سوں کے استاد اور صداکاری کے دنیا کا بے تاج بادشاہ طارق عزیز بھی راہ عدم کے مسافر بن گئے ، جو ش اور ولولے سے بھر پور آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ، مر دانہ وجا ہت کی دولت سے مالامال آواز کی دنیا کا خوب صورت لہجہ الفاظ کی قید سے آزاد ہو گیا ، طارق عز یز کیا تھے ، طارق عزیز اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ،طارق عزیز ایک دنیا کا نام تھا ، طارق عزیز ایک عہد کا نام تھا ، ایک دل آویز لب و لہجے کے خوب صورت میزبان ، تلفظ کے بادشاہ ، لفظ کی ادائیگی میں یکتا ، جملے کی ادائیگی کے شاہ اور شعرو سخن کے شہنشاہ تھے ، اردوزباں پر ایسی دسترس کہ جس کی مثال نہیں ، ادب نواز اور ادب شنا س ایسے کہ اہل زباں حیراں رہ جاتے ،اردو نثر میں روانی ایسی کہ بس طارق عزیز بولتا رہے اورسننے والا انہیں سنتا رہے ، شعر و سخن کا باب کھو لتے تو طارق عزیز پر بس، بڑے بڑے نامور شعرا اکرام گزرے ہیں مگر شعر پڑھنے کا جو سلیقہ طارق عزیز کا تھا وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ، علم و ادب کا چلتا پھر تا خزانہ ، طارق عزیز کیا تھے ، طارق عز یز ہشت پہلو صفات کے مالک شخصیت تھے ، طارق عز یز کمال کے میز بان تھے ، طارق عزیز اعلی اداکار تھے ، طارق عزیز سکہ بند ادیب تھے ، طارق عزیز بہترین شاعر تھے ، طار ق عزیز سیاست داں تھے ، طارق عزیز ہر دل عز یز صداکار تھے ،طارق عزیز پاکستانی ثقافت کا شان تھے، سچ پو چھیے تو طارق عزیز اردوزباں کامان تھے ، طارق عزیز اردوزبان کے چلتے پھرتے رسمی اور غیر رسمی استاد تھے ، تلفظ کی درستی پر طارق عزیز سند کی حیثیت رکھتے تھے ، کسی الفاظ کی ادائیگی میں زیر زبر پیش تک کا ”لحاظ “ رکھنے والے کو اہل زباں طارق عزیز کے اسم گرامی سے جانتی تھی ، نو جوان نسل کے وہ استاد بھی تھے ہیرو بھی تھے اور دوست بھی تھے، بڑی شائستگی سے بڑی سے بڑی بات کہنے کا مالکہ صرف طارق عزیز کو حاصل تھا ، نیلا م گھر کی میزبانی کی اپنے پر وگرام کے ذریعے معلومات اور اردو زباں سے محبت نئی نسل میں منتقل کی اور خوب کی ، شاہ دماغ ایسے کہ بے شمار شعر ازبر تھے ، برمحل شعر سنا نے کا ہنر بھی صرف طارق عزیز کو ہی آتا تھا ، سوال یہ ہے طارق عزیز کے عہد میں بھی بے شمار لوگ فن میزبانی سے وابستہ تھے نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد تو گو یا ” فن میز بانی “ با قاعدہ کا روبار حیات بن چکی ، نیلا م گھر کی دیکھا دیکھی کئی چینلز نے اس طر ح کے پروگرام شروع کیے ، کیا ان پروگراموں کے میز بانوں میں طارق عز یز کی کو ئی ایک خوبی بھی نظر آتی ہے ، کسی ایک میز بان کا نام بتلا ئیے جسے اردوں زبا ں پر طارق عزیز کی طر ح دسترس حاصل ہو ، کو ئی ایک میز بان بتلا ئیے جس کا پروگرام طارق عز یز کے پروگرام کی طر ح پاکستانی ثقا فت کی عکا سی کر تا ہو ،کو ئی ایک میز بان بتلا ئیے جسے شعر پڑ ھنے میں ملکہ حاصل ہو ، بس یہ صرف طارق عزیز ہی تھے جسے رب کریم نے تما م خوبیوں سے نوازا تھا، لا کھو ں کروڑوں میں کھیلنے والے طارق عزیز نے ابتدا میں غربت بھی دیکھی اور بھو ک سے پنجہ آزما ئی بھی کر تے رہے مگر شاکر ایسے کہ مالی تنگی کا زمانہ بھی رب کر یم کا شکر کر تے ہنستے مسکراتے کا ٹا ، جب دولت گھر کی باندی بنی پھر بھی طارق عزیز ” نازو ادا “ سے کوسو ں دور سادہ زندگی کے خو گر رہے ، ذاتی شخصیت کے حوالے سے طارق عزیز خلوص کا پیکر اور محبت بانٹنے والا سمندر تھے ، بہت کم شخصیات پر قدرت اس قدر مہرباں ہو تی ہے کہ اسے ہر نسل میں پذیرائی سے نوازے ، طارق عزیز ان چند شخصیات میں ایک تھے جنہیں پیر و جواں سبھی پسند کرتے تھے اور ان سے محبت کا دم بھر تے تھے ، طارق عزیز ، اردو اور پاکستان یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تھے ، طارق عزیز کا ذکر ہو اور اردو زباں کا ذکر خیر نہ ہو ، طارق عز یز اور اردو زباں کا تذکرہ چلے اور پاکستان کا ذکر نہ ہو ،در اصل طارق عزیز ، اردو زباں اور پاکستان آپس میں لازم وملزوم تھے ، طارق عز یز کے جانے سے پاکستان ایک عاشق صادق سے اور اردوزباں پر واری صدقے ہو نے والی معشوق سے محروم ہو گئی ، بہت سے لو گ آئیں گے اور جا ئیں گے ، اردو زباں کی خدمت کر یں گے ، پاکستان سے محبت کا دم بھریں گے مگر طارق عز یز جیسا اردو کا رسیا اور پاکستان سے محبت کر نے والا عاشق صادق پاکستان کو شاید ہی ملے ،طارق عزیز نے آج نہیں تو کل جا نا تھا مگر سچ پو چھیے تو ایسے ہیروں کو الوداع کر نے کو دل نہیں کر تا ، دنیا کو خوب صورت بنا نے والے یہ لوگ کچھ اور جی لیتے تو کتنا اچھا ہو تا ، بہر حال رب کریم کے فیصلے پر سر تسلیم خم ،بوجھل دل کے ساتھ دیکھتی آنکھو ں سنتے کا نوں طارق عزیز کی طرف سے خدا حافظ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔