”کیا بنے بات،جہاں بات بنائے نہ بنے“

ہفتہ 11 جولائی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

کا م اور نام دونوں لحاظ سے خوش نام صحافی نے ببانگ دہل ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر تقرر کے عوض تین کروڑ کا قصہ بیاں کیا ہے ، پنجاب میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت ” سوانیزے “ پر تھی خوش بختی کے ان ایام میں بھی ایک کلیدی حکومتی شخصیت کے بارے میں چر چا تھا کہ افسران کے تقرر و تبادلوں کے سلسلے میں پیسے کا زور چلتا ہے ، اب حالیہ شفاف حکومت میں بھی افسر شاہی کے تبادلوں کے عوض لین دین کی خبر آگئی اگر صادق اور امین حاکم کی ناک کے عین نیچے بھی ” حسب سابق “ والے معاملات چل سو چل ہیں سوال تو پھر شد و مد کے ساتھ بنتا ہے ، داخلی انتظام و انصرام میں ڈی ایم جی گروپ اور پو لیس گر وپ کے افسران کے کردار سے بھلا کو ن واقف نہیں ، حکومتی مشینری میں اہم ترین پر زے ڈی ایم جی اور پو لیس گروپ کے افسر ان ہو تے ہیں ، کسی حکومت کو عوام کی نظر وں سے گرانا ہو یا اسے عوام کی نظر وں میں سر خرو کر نا ہو دونوں طر ح کے کر شمے یہی دو گروپ کے افسران دکھا یا کر تے ہیں ، در اصل ملک کے داخلی معاملات چلا تے ہی ڈی ایم جی اور پو لیس گروپ کے افسران ہیں ، زیادہ تر اسسٹنٹ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، کمشنر اور دیگر کلیدی عہدوں پر ڈی ایم جی گروپ کے افسران براجمان ہو تے ہیں ، کسی بھی ضلع کے انصرام میں ضلع کے کمان دار اور شہر کو توال اہم ترین افسر ہوا کر تے ہیں ، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو تنخواہ اور مراعات ساتھ ساتھ دو میں سے ایک ” بونس “ لا زماً ملا کر تا ہے یعنی دعا اور بد عا میں سے ایک ” بونس “ ان کے افسران کے حصے میں ہر صورت آتا ہے ، ڈی ایم جی گروپ کا افسر کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر رہے اور اسے متعلقہ ضلع کے باسیوں کی دعا یا بد عا نہ ملے ایسا کسی صورت ممکن ہی نہیں جو ڈپٹی کمشنر متعلقہ ضلع کے عوام کے لیے آسانیاں پید ا کر کے جاتا ہے اس ضلع کے باسی مر تے دم تک اس ڈپٹی کمشنر کے لیے کلمہ خیر بلند کر تے ہیں کم وپیش اسی طرح کا احوال متعلقہ ڈی پی او کا ہوا کر تا ہے اگر ڈی پی او جرائم پیشہ ، غنڈوں ، اور سماج دشمن عناصر کو نکیل ڈال دیتا ہے ، مظلوم کی آہ پر آنا ً فاناً قانون کا ڈنڈا استعمال کر تا ہے وہ پو لیس افسر معینہ عرصہ گزار کر چلا جا تا ہے مگر اس ضلع کے عوم اس پو لیس افسر کی شان میں دعائیہ قصید ے پڑ ھتے نہیں تھکتے ، سو چ کے گھو ڑے خود دوڑا لیجیے اگر ضلع کا ڈپٹی کمشنر لگنے کے لیے تین کروڑ ” ادھر سے ادھر “ ہو ں پھر وہ افسر اعلی کیسے خلق خدا کے ساتھ انصاف کر ے گا ، اپنے زیر کمان محکموں کا قبلہ وہ کیسے سیدھا کر ے گا ، لین دین کا مروجہ اصول ہے ، لا کھوں لگا ؤ کروڑوں کما ؤ کروڑوں لگا ؤ اربوں کما ؤ، حکمران طبقے نے دو طر ح سے افسر شاہی کے کھیپ کو تباہ کیا ، اولاً حکمران مر ضی کے افسران کلیدی عہد وں پر تعینات کرتے ہیں ، بے شک اپنے مر ضی اور منشا کے افسران کو قر بت کی خوشبو عنا یت کیجیے مگر اس معاملے میں سنیارٹی کا لحاظ کم از کم پیش نظر رکھیے ، اس معاملے میں مگر حکمران طبقے نے محض ذاتی پسند و ناپسند کو معیار بنا ئے رکھا تقرر کی اس من چاہی پا لیسی سے ایمان دار اور فر ض شنا س افسر شاہی میں ما یوسی نے جنم لیا ، اس روش بد سے افسر شاہی میں ” جی حضوری بہت ضرور ی “ کا عنصر پروان چڑ ھا یو ں قابل افسر کھڈ ے لا ئن لگنے لگے اور خوش آمد کے فن میں طاق جو نےئر افسران کلیدی عہدوں پر تعینات ہو نے لگے ، لگے کئی سالو ں سے تقرر و تبادلو ں کے سلسلے میں ” پیسے “ کی باز گشت بھی سنا ئی دینے لگی ، کلیدی عہدوں پر حکمران طبقے کے ان پا لیسیوں نے انتظامی ڈھا نچے کا بٹہ بٹھا دیا ہے ، جب ایک افسر سفارش یا پیسے دے کر کسی عہدے پر اپنی تعینا تی کرواتا ہے اسے پھر اپنے لگا ئے ہو ئے پیسے پو رے کر نے کی فکر دامن گیر ہو تی ہے اگر سفارش سے آیا ہو اس صورت اسے صرف اپنے ” محسن “ کا لحاظ ہو تا ہے ، خلق خدا کس حال میں ہے ، خلق خدا کے کیا مسائل ہیں ، خلق خدا کے مسائل کے حل کے لیے کیا کر نا ہے ، عوام کی آسانی کے لیے انتظامی سطح پر کن پا لیسیوں کا چلن عام کر نا ہے ، سفارش یا پیسے کے بل پر تعینات ہو نے والے ایسے افسران کو عوامی معاملات سے کو ئی لگا ؤ نہیں ہو تا ، ڈی ایم جی گروپ ایک قابل اور ذہین افسران کا گروپ ہے اس گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران عوام کے مسائل کے لیے پالیسیاں تیار کر تے ہیں ، اسی ڈی ایم جی گروپ کے افسران عوامی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر تے ہیں ، خدارا افسر شاہی کے اس اہم ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے افسران کو ہوس کی آگ میں نہ دھکیلیں ، ان کے تقرر و تبادلو ں میں سفارش اور پیسے کے بجا ئے اہلیت ، قابلیت اور عوام دوست صفا ت کو دیکھیں ، گزشتہ کئی سالوں سے انتظامی سطح پر عوام کو گو ں نا گوں مسائل کا سامنا ہے حلانکہ صوبے کی سطح پر دھا نسو قسم کی انتظامی مشینری مو جود ہے اسی طرح ضلع اور تحصیل کی سطح پر بھی پورے طمطراق کے ساتھ انتظامیہ کا وجود مو جود ہے مگر گرانی ، ذخیرہ اندوزی ، ملا وٹ اور لا قانونیت کے واقعات کم ہو نے کے بجا ئے بڑھ رہے ہیں ، اس کی وجہ صرف اور صرف انتظامی عہد وں پر تقرو تبادلو ں میں ” بد انتظامی “ ہے ، آزمائشی بنیادوں پر پنجاب کے چھتیس اضلاع میں خالصتاً ” اہلیت “ پر ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی اوز کا تقرر کر لیجیے اور پھر انہیں مکمل اختیارات کے ساتھ ” کمان داری “ کی سند عطا کر دیجیے ، ما ہ و سال تو دور کی بات چند دنوں میں ہر طر ح کے قا نون شکن جنگلو ں میں اذا نیں دیتے نظر آئیں گے ، یہ مگر اس صورت ممکن ہے جب مر کز اور صوبے میں ایسے حکمران اقتدار کے تخت پر براجما ن ہو ں جنہیں عوام کے درد کا احساس ہو ، بے شک ہر روز آپ افسران کو ادھر سے ادھر کر تے رہیں جب تک افسران کے تقر ر و تبادلوں پر سیاست ،سفارش اور پیسے کی تلوار لٹکتی رہے گی معاملہ اس وقت تک سیدھا ہو نے والا نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :