”بھلا ئی اور رسوائی“

منگل 17 نومبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

خبر ہے کہ ایک بی اماں کو قلیل ساگیس بل جمع کر وانے کے لیے لا کھو ں جتن کر نے پڑ تے ہیں ہزار بارہ سو کے گیس بل کے لیے بے سہارا بزرگ خاتون بھیک مانگ کر محکمہ گیس کا ” پیٹ “ ہر ماہ بھرتی ہیں کھنڈر نما گھر کی مکین بزرگ خاتون کئی مر تبہ محکمہ گیس کے ذمہ داروں سے گیس میٹرسے جاں خلاصی کی درخواست کر چکیں مگر وطن بے اماں میں غرباء کی سنتا کون ہے ، ایک اور خبر ملاحظہ کر لیجیے جس کا چر چا ہر سو ہے دو ساہوکار وں کے بچوں کی شادی پر پیسہ پانی کی طر ح بہا یا گیا ، شادی تقریبات اور تحائف کے مد میں دو سو کرو ڑ اڑانے کی شنید ہے ، کیا دوسوکروڑ خرچ کیے بغیر امراء کے بچوں کی شادی ممکن نہ تھی ، شادی بیاہ اور اسی طر ح کی دوسری تقریبات پر لاکھوں کروڑوں اڑانے کی ریت پاکستانی معاشرے میں باقاعدہ ایک ” سماجی قدر “ کا درجہ پاچکی ہے ، دیکھا دیکھی اور ” ناک اونچی “ رکھنے کے نام پر شادیوں میں ” فضولیات “ پر پیسہ اڑانے کی ایک د وڑ سی لگی ہو ئی ہے ، متوسط طبقہ بھی اس ” مرض “ سے پاک نہیں متوسط طبقے میں شادیوں پر مانگ تانگ کر لاکھوں لگا ئے جاتے ہیں اور بعد میں ان لا کھوں کا قرض اتارنے کے لیے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے توبہ تو بہ کر تے نظر آتے ہیں جہاں تلک قصہ طبقہ امراء کا ہے ، طبقہ امراء کو اپنی دولت کی نما ئش کا بس بہا نہ چا ہیے ، منگنی ہو بچوں کی سال گر ہ ہو یا شادی بیاہ طبقہ امراء اپنی جھوٹی انا کی تسکین اور اپنی نمود کے لیے پیسے کی ایسی بے تو قیر ی کر تے ہیں کہ بیاں سے باہر ہے ، وطن عزیز کی آدھی سے زائد آبادی کس حال میں جی رہی ہے ، لا کھو ں مردو زن ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ، بے شمار گھرانے ایسے ہیں جو زند گی کی بنیادی ضروریات کے لیے تر س رہے ہیں ،، لاکھو ں مر د و زن ایسے ہیں جن کا آسرا صرف آسمان ہے ، بھوک و افلاس گویا ہر دوسرے گھر کی مہماں ہے ، لا چاروں درماندوں بیماروں اور محتاجوں کا ایک سل رواں ہے ، معاشرے کے صاحب ثروت گھرانے اگر مخلوق خدا کے بھلے کی ٹھان لیں یقین کیجیے بے شمار گھرانوں کے ” بڑے بڑے مسائل “ طبقہ امراء کی رتی برابر مالی تعاون سے دور ہو سکتے ہیں ، حالیہ مو ضوع بحث شادی والے گھرانوں کو ہی لے لیجیے اگر دونوں گھرانے دوسو کروڑ میں سے محض آٹھ دس کروڑ ہی ضرورت مندگھرانوں پر صرف کر لیتے ، خود سوچ لیجیے کتنے بے کسوں کا بھلا ہو جاتا ، بے شمار ایسے روشن دماغ طلبہ و طالبات ہیں جو بھاری بھر کم فیسوں کی وجہ سے اپنی اعلی تعلیم کا سلسلہ توڑنے پر مجبور ہیں بے شمار ایسی لڑ کیاں ہیں جو شادی اخراجات نہ ہو نے کی وجہ سے گھر وں میں بیٹھی ہیں ، ہر محلہ ہر گاؤں ہر گوٹھ ہر شہر میں لا تعداد ایسے محتاج اور غریب گھرانے ہیں جنہیں پیٹ کی آگ بجھا نے کے لیے کسی ” مسیحا “ کی ضرورت ہے ، طبقہ امراء اگر فضولیات پر دولت لٹانے کے بجا ئے معاشرے کے ان ضرورت مندوں پر اپنے مال کا کم از کم ایک فیصد بھی صدق دل سے خرچ کر ے امید واثق ہے پاکستانی معاشرے میں نہ کو ئی محتاج رہے گا نہ کو ئی لا چار رہے گا نہ کو ئی بیمار رہے گا نہ کو ئی بھوکا رہے گانہ کسی یتیم اور بے سہارا لڑ کی کے بالوں میں ” چاندی “ چمکے گی نہ کو ئی فطین طالب علم تعلیم کی روشنی سے محروم رہے گا نہ کسی ضرورت مند کو کسی کے سامنے ہا تھ پھیلا نے کی ضرورت پیش آئے گی ، طبقہ امراء کی مخلوق خدا سے عملی محبت سے جہاں وطن عزیز کے ہر گھر میں اطمینان اور سکون کا بسیرا ممکن ہو پا ئے گاوہی طبقہ امراء کی یہ ” شفقت “ ان کے لیے آخرت میں کا مرانی کا باعث بھی بنے گی، بات بس ذرا سی سوچنے کی ہے بات بس اپنی جھوٹی انا کو دفن کر نے کی ہے بات بس اپنی ناک کٹنے کے خول سے نکلنے کی ہے ، بات بس خوف خدا کی ہے بات بس مخلوق خدا سے محبت کر نے کی ہے ، طبقہ امراء کے دلوں میں جس دن خوف خدا نے لشکارا مارا طبقہ امراء کے دلوں میں جس دن محتاجوں کی خدمت کا جذبہ بیدار ہوا ، طبقہ امراء کے دلوں پر جس دن عجز و انکساری کا راج ہو ا، دیکھ لیجیے حقیقی معنوں میں پاکستانی معاشرے میں اس دن سے مثبت تبدیلی انگڑائی لے گی ، حق سچ کیا ہے ، کھربو ں پتی ہو یا در در کا فقیر دراصل دونوں ” دو گز “ کے زمین کے مالک ہیں جس دن طبقہ امراء کے دلوں میں ” دوگز “ زمین کی ملکیت کا احساس پیدا ہوگا ، سماجی سطح پر پاکستانی معاشرے میں اخوت اور بھلا ئی کے اقدار آپ کوہر قدم پر نظر آئیں گے ، چند روزہ بہار میں جتنا ہو سکے دوسروں کے ساتھ بھلا کر نے کی روش اپنا لیجیے خود بھی پر سکون رہیں گے اور آپ کی وجہ سے دوسرے بھی چین سے رہیں گے ، دوسروں کے لیے ” جگنو“ بنیں یہی فلاح کا راستہ ہے اپنی دولت کو رسوائی کا ذریعہ نہ بنا ئیں بلکہ اسے دنیا و آخرت کے لیے بھلا ئی کا وسیلہ بنا ئیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :